پاکستان اور بھارت ایک بار پھر خوفناک تصادم کے دہانے پر ہیں دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے برصغیر کو ایک بے یقینی کی صورت حال میں دھکیل دیا ہے جس کی وجہ سے بحران پھیلنے کا خطرہ بڑھ چکا ہے کیونکہ دو طرفہ بات چیت کے راستے کو مکمل نظرانداز کیا جارہا ہے جبکہ سفارتی تعلقات مزید بدتر ہورہے ہیں۔اس تمام تر صورت حال نے 2019 کے بالاکوٹ واقعے کی یادیں تازہ کردی ہیں کہ جب بھارتی طیاروں نے پاکستان کی سرحدی حدود میں دراندازی کی کوشش کی اس مرتبہ بھی کشیدگی انتہا پر ہے پاکستان نے جموں میں اس ایئر اسٹرائیک کا جواب دیا تھا۔ تاہم بحران دوست ممالک کی مدد سے اس وقت حل ہوگیا تھا کہ جب پاکستان نے اس بھارتی پائلٹ کو رہا کیا جس کے جہاز کو پاکستان کی سرحدی حدود میں مار گرایا گیا تھا۔پاکستان کے وزیر دفاع کی جانب سے ممکنہ بھارتی حملے کے خطرے کے پیش نظر اہم سٹرٹیجک فیصلے کرنے اور بطور خاص جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا امکان ظاہر کرنا پاکستان کی جانب سے حتمی تیاری ہی کا عندیہ نہیں بلکہ ایک ایسے طرز دفاع کا برملا اظہار ہے جس کے حوالے سے ماہرین بھی نہ صرف اس دفعہ بلکہ قبل ازیں بھی بھارت سے کشیدگی کے موقع پرامکان ظاہر کر چکے ہیں پاکستان ممکنہ طور پر بھارتی سرحد کے قریب سے ایسے چھوٹے مگر حساس ہتھیاروں کا استعمال کر سکتا ہے جس سے بھارت کو مسکت جواب ملے ۔ نجی ٹی وی چینل کی ایک رپورٹ سے بھی اس کی تصدیق ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف کسی ممکنہ مس ایڈونچر کا جواب دینے کے لئے پاکستان نے بھی سرحد پار سینکڑوں اہداف کا تعین کر لیا ہے بھارت کے کسی حملے کے جواب میں ان اہداف کو منٹوں میں نشانہ بنا لیا جائے گا ماہرین کے مطابق اس کارروائی کی نوبت آگئی تو یہ بیک وقت کئی اہداف پر موثر کارروائی ہو گی جس کے جنگی نتائج کایا پلٹ ہوں گے لیکن چونکہ یہ ایسی ممکنہ کارروائیاں ہو سکتی ہیں جس سے احتراز کرنے کی ہر ممکن کوشش ہوگی بنابریں اس کے امکانات ہونے کے باوجود بھی اس کی نوبت نہ آنے دینے کی پیشگوئی مناسب معلوم ہوتی ہے بھارت کو واضح الفاظ میں جو پیغام دیا گیا ہے اور بھارتی فوج کو پاکستان کی صلاحیتوں اور خصوصی مہارت کے شعبوں خاص طور پر ”چھوٹے ہتھیاروں” کی موجودگی اور اس میں برتری رکھنے کی جو حقیقت سامنے ہے ایک بڑا ملک ہونے کے ناتے بھارت اس درجے کی تباہ کن صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں ہو گا اس ضمن میں سابق صدر جنرل ضیاء ا لحق مرحوم کی کرکٹ ڈپلومیسی اور جنگ کی پوری تیاری کرکے فوجیں سرحد پر کھڑی کرنے والے سابق بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی سے مکالمہ کا حوالہ دیا جا سکتا ہے دیکھا جائے تو آج بھی پاکستان کی جانب سے اسی پیغام کا اعادہ کیاگیا ہے جو اس وقت بھی موثر ثابت ہوا تھا اس وقت بھی مودی سرکار کے ہوش ٹھکانے آنے کا زیادہ امکان ہے جہاں ایک جانب جنگ کی فضا طاری ہے وہاں دوسری جانب بعض غیر مصدقہ ا طلاعات کے مطابق بھارتی وزیر اعظم مودی نے ایران کی وساطت سے کشیدگی کم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے ممکن ہے ان کو اپنی غلطی کا احساس دلایا گیا ہو سعودی عرب اور چین کی جانب سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں کمی لانے پر بھی سفارتی طور پر سرگرمیاں نظر آرہی ہیں ترکی کے وزیر اعظم بھی سرگرم ہو گئے ہیں جبکہ امریکی صدر ٹرمپ کی دونوں حریف ملکوں کواپنے مسائل خود حل کرنے کے مشورے کے باوجود امریکہ متحرک ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تصادم کی نوبت نہ آئے ایسا اگر خطے میں کشیدگی میں کمی لانے کی خواہش کے طور پر نہ بھی ہو تو بھارت میں لگا سرمایہ بچانا ہر اس ملک کا مفاد ہے جس سے بھارت کے معاشی و تجارتی اور سرمایہ کاری کے معاملات ہیں۔ کسی بھی فوجی کارروائی کا پاکستان کی جانب سے منہ توڑ جواب یا جائے گا جس کے نئی دہلی پر غیرمتوقع اور غیریقینی نتائج مرتب ہوں گے۔ یوں حالات قابو سے باہر ہوسکتے ہیں جو 2019 سے بھی سنگین ہوسکتا ہے۔2019 میں تیسرے فریق کی مدد سے بحران حل ہوا تھا۔ کیا اب بھی یہی ہوگا؟ اگر بروقت اس طرح کی کوئی مدد نہیں کی گئی تو جوہری ہتھیاروں سے لیس دو ہمسایوں کے درمیان صورت حال ماضی کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہوسکتی ہے۔محدود جنگ کا تصور کہ جس میں حالات جوہری جنگ کے نہج تک نہ پہنچیں، انتہائی خطرناک ہے۔ ایسی صورت حال سے ہر صورت بچنا ہوگا۔ اگرچہ بھارت کو اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی لیکن کسی بھی غلط حساب سے بچنے، بحران کو قابو کرنے اور قابو سے باہر ہونے سے قبل اس سے نمٹنے کے لیے تاخیر کیے بغیر بیک چینل روابط کو بحال کیا جانا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اس کے نتائج انتہائی تباہ کن ثابت ہوں گے۔
