ایک اور حج سکینڈل

حج آپریشن کے آغاز ہی ہونے پر ملک بھر کے 67ہزار سے زائد عازمین حج امسال حج ادا نہ کرنے کے خطرات سے دوچار ہونا تشویشناک امر ہے وجوہات جو بھی ہوں کہا جاتا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے عازمین حج کا ڈیٹا بروقت سعودی عرب ارسال نہ کرنے اور عازمین کیلئے این او سی حاصل نہ کرنے کی وجہ سے مذکورہ 67ہزار سے زائد عازمین حج غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہوگئے ہیںوفاقی وزارت مذہبی امورانتظامیہ کی نا اہلی کی وجہ سے پہلے سے ہی 67 ہزار افراد حج کی سعادت سے محروم ہو گئے ہیں۔ اب انہیں اسلام آباد اور پشاور کے چکر لگوائے جا رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے عازمین حج کا کوئی پرسان حال نہیں ہے کوتاہی کی مختلف وجوہات بتائی جا رہی ہیں۔ کچھ رپورٹس بتاتی ہیں کہ پرائیویٹ حج آرگنائزر سعودی حکومت کے معیار پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں، جب کہ آپریٹرز کا دعویٰ ہے کہ سسٹم کریش ہونے سے ادائیگیوں میں تاخیر ہو رہی ہے۔ دوسری رپورٹس بتاتی ہیں کہ حج کی رقم غلط سعودی اکائونٹ میں بھیجی گئی۔اس بات کی نشاندہی کرنے کے لیے غلط کیا ہوا اس کے دوبارہ نہ ہونے کو یقینی بنانے کے لیے ایک مکمل، شفاف تحقیقات کی ضرورت ہے۔ مزید برآںحکومت کو سعودی حکومت سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ تمام عازمین حج کو حج کے لیے جانے کی اجازت دے اور ان کے لئے خصوصی طور پر انتظامات کئے جائیں حقیقت یہ ہے کہ حاجیوں کے لئے انتظامات میں مسلسل بد انتظامی سامنے آرہی ہے ماضی میں، مذہبی امور کے ایک وزیر، دیگر اعلی عہدیداروں کے ساتھ، حج بدعنوانی کے ایک مقدمے میں ملوث تو کئے گئے لیکن بعد میں بری کر دیا گیا تھا۔جس سے قطع نظر تقریبا ہر سال، حجاج ناکافی، غیر معیاری رہائش اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات کے ساتھ ساتھ مخفی اخراجات کی شکایت کرتے ہیں۔ حکومت کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ حج کا پورا انتظام درخواست کے مرحلے سے لے کر حاجیوں کی وطن واپسی تک کا تمام مرحلہ ہموار اورغیر تکلیف دہ ہو۔ اس مقدس رسم کو بیوروکریٹک ہنگامہ آرائی اور بے ضمیر منتظمین کی حرص سے خراب نہیں ہونا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  قانون ساز ادارہ یا دفتر روزگار