تعلیمی جانچ(Assessment) کا بنیادی مقصد طلبہ کی کمزوریوں کی نشاندہی کرنا اور انہیں بہتری کے لئے مواقع فراہم کرنا ہے ۔ ہمارے ہاں نقل کا (External Evaluations)رجحان اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں جس کی بنیادی وجہ جانچ کے نظام میں موجود خامیاں اور نتائج پر غیر ضروری زور دینا ہے وقت کے ساتھ ساتھ بورڈ امتحانات میں زیادہ نمبر اور پوزیشن حاصل کرنا طلبہ اور والدین کا ایک جنون بن چکا ہے زیادہ نمبروں کی اس دوڑ کو روکنے کاایک آسان حل یہ ہوسکتا ہے کہ ہمارا نظام بھی گریڈنگ سسٹم کی طرف منتقل ہو جیسا کہ او لیول اور اے لیول کے امتحانات میں ہوتا ہے یہ بین الاقوامی امتحانات غیر ملکی بورڈز کے تحت ہوتے ہیں جہاں مکمل کنٹرول ‘ شفافیت اور خالصتاً میرٹ پر مبنی جانچ کو یقینی بنایا جاتا ہے نہ پیپر آئوٹ ہوتا ہے اور نہ ہی جانبداری کی گنجائش رہتی ہے ۔
حال ہی میںخیبر پختونخوا میں گریڈ9اور10 کے طلبہ کے پہلے بیرونی امتحان کے دوران جو افراتفری دیکھنے کو ملی اس نے ہمارے تعلیمی نظام کی نازک حالت کو عیاں کر دیا یہ محض ایک انتظامی غلطی نہ تھی بلکہ ان گہرے ساختی مسائل کو بے نقاب کر گئی جنہیں برسوں سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے میں ہر آنے والی حکومت نے یکساں نصاب ‘ یکساں تعلیمی نظام اور یکساں کتابوں کے نعروں کے ذریعے انقلابی اصلاحات کے دعوے کئے لیکن بھاری عوامی اخراجات کے باوجود کوئی خاطر خواہ بہتری سامنے نہیں آسکی معیار تعلیم مزید گرا ‘ ابہام بڑھا اور عوام کا اعتماد مزید متزلزل ہو گیا۔ایسے میں چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا کا امتحانات سے چند ہفتے قبل نجی تعلیمی اداروں کو امتحانی مراکز بنانے سے روکنے اور تمام امتحانات کو سرکاری اداروں میں منتقل کرنے کا اچانک فیصلہ اس رجحان کا مظہر تھا کہ فیصلے بغیر تیاری اور قانونی جواز کے کئے جاتے ہیں اس کا نتیجہ فوری اور تکلیف دہ نکلا امتحانی مراکز گنجائش سے زیادہ طلبہ سے بھر گئے بہت سے مراکز میں جنریٹرز ‘ مناسب نشستیں او روشنی جیسی بنیادی سہولیات بھی موجود نہ تھیں ضلعی انتظامیہ کے افسران جو تعلیمی امتحانات کے لئے تربیت یافتہ نہ تھے کو انتظامی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں جبکہ تجربہ کار بورڈ عملے کو نظر انداز کر دیا گیا والدین اور طلبہ کو اجنبی اور دور دراز امتحانی مراکز کی وجہ سے اضافی ذہنی دبائو کا سامنا کرنا پڑا۔سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ تھی کہ بورڈز آف انٹرمیڈیٹ ا ینڈ سکینڈری ایجوکیشن ایکٹ 1990ء کے تحت امتحانات کے قانونی منتظم ہیں کو نظر انداز کرکے امتحانی عمل کو ضلعی انتظامیہ کے حوالے کر دیا گیا یہ اقدام نہ صرف موجودہ قانونی فریم ورک کی خلاف ورزی تھا بلکہ تعلیمی جانچ کی خود مختاری اور وقار کے لئے بھی شدید نقصان دہ تھا۔تعلیم میں حقیقی ا صلاحات انتظامی جھٹکوں یا غیر آئینی مداخلت سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لئے محتاط منصوبہ بندی ‘ پائلٹ پروجیکٹس ‘اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور سب سے بڑھ کر قانون کی مکمل پاسداری درکار ہے ۔ اگر پاکستان تعلیمی جانچ اور معیار تعلیم میں بہتری چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے موجودہ قوانین کا احترام کرنا ہو گا۔ BISE ایکٹ 1990 اور اس سے منسلک ضوابط کی فوری اور جامع نظرثانی ناگزیر ہے موجودہ قانون کے تحت جوائنٹ اکیڈمک کمیٹی جیسے ادارے امتحانات اور تدریس کے معیار کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں لیکن بیشتر بورڈز میں یہ ادارے غیر فعال ہیں۔اسی طرح پرچہ سازوں کی تقرری اور نصاب کی نظرثانی کی کمیٹیاں بھی محض کاغذی کارروائی تک محدود ہیں۔ مزید برآں قانون کے مطابق ہر بورڈ آف گورنرز میں چار ارکان کا انتخاب شفاف طریقے سے کیا جانا چاہئے تاکہ فیصلہ سازی میں وسیع تر نمائندگی کو یقینی بنایا جا سکے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اکثر بورڈز میں آج تک ان انتخابات کا انعقاد نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے بنیادی اسٹیک ہولڈرز حکومتی فیصلوں سے باہر رہ گئے ہیں۔ کمیٹیوں کی غیر فعالیت اور نمائندہ ڈھانچے کی عدم موجودگی کی وجہ سے پالیسی فیصلے زمینی حقائق سے کٹے ہوئے اور غیر موثر ہو جاتے ہیں۔حالیہ امتحانات میں پیش آنے والے مسائل کوئی اتفاقی واقعات نہیں تھے بلکہ وہ ایک وسیع تر ثقافتی مسئلے کی عکاسی کرتے ہیں جہاں حکمرانی قانون اور مشاورت کی بجائے وقتی مفادات اور شارٹ کٹس پر مبنی ہو گئی ہے ۔حقیقی اصلاحات کے لئے ضروری ہے کہ ہم بنیادی اصولوں کی طرف لوٹیں شفافیت ‘ قانون کی بالادستی ‘ احتساب اور اساتذہ و طلبہ کو بااختیار بنانے کا پختہ عزم کیا جائے ۔ اصلاح احوال کے لئے صوبائی حکومت ‘ وزارت تعلیم اور تمام متعلقہ ریگولیٹری اداروں کو فوری طور پر BISE ایکٹ اور اس کے ضوابط کا جائزہ لینا چاہئے اور انہیں موجودہ تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہئے تمام BISE کا ایک مکمل آڈٹ کروایا جائے تاکہ ان کی انتظامی اور تعلیمی کمزوریوں کا پتہ چلایاجا سکے تمام قانونی طور پر قائم شدہ کمیٹیوں کو فعال او موثر بنایا جائے بورڈ آف گورنرز کے انتخابات بلا تاخیر کرائے جائیں تاکہ حکمرانی کی ڈھانچے میں شفافیت اور نمائندگی یقینی بنائی جا سکے ۔ پاکستان کا تعلیمی شعبہ مزید تجربات اور سیاسی مداخلت کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ تعلمی اصلاحات کوئی نعرہ یا وقتی اقدام نہیں بلکہ ایک مسلسل اور صبر آزما عمل ہے جو قانون ‘ مشاورت اور مستقل مزاجی کی بنیاد پر ہی کامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے ۔ جب تک اصلاحات ادارہ جاتی اور قانونی بنیادوں پر استوار نہیں کی جاتیں ہمارا تعلیمی نظام ایک ناکام منصوبے سے دوسرے ناکام منصوبے تک لڑکھڑاتا رہے گا اور اس کی قیمت ہمارے طلبہ اور ہمارے مستقبل کو چکانی پڑے گی۔
