یوم مزدور تاریخ کے آئینہ میں

سال میں درجنوں عالمی دن منائے جاتے ہیں،اور کسی بھی عالمی دن کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہر دن جو ہم مناتے ہیں اپنی جگہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن ہے اور ہر سال اس دن ہمارے سکول، کالج ، یونیوسٹیاں سرکاری دفاتر ، ادارے ، مارکیٹیں اور دکانیں غرضیکہ تمام سرکاری و غیر سرکاری ادارے بند ہوتے ہیں۔شدت کی گرمی اور تیز دھوپ میں جلسے جلوس ریلیاں نکالی جاتی ہیں کیونکہ یہ محنت کشوں کا عالمی دن ہے۔ دہقانوں کا دن ہے معماروں کا دن ہے ،کسانوں کا دن ہے اور مزدوروں کا دن ہے۔ تمام مزدور اس دن فیکٹریوں اور ملوں کو بند کرکے جلوس کی شکل میں سڑک پرامنڈ آتے ہیں۔ پر امن جلوس بھی ہوتے ہیں نعرے بازی ہوتی ہے سڑکوں پر تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔ سرخ جھنڈے لہرا کے قراردادیں پیش کی جاتی ہیں ۔ حصول حقوق کے لئے مزدور اپنا حق مانگتے ہیں اور مالک و مزدور کے مابین قربت رکھنے کے لئے اسے رواج دیا گیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں مزدور کو ایک خاص مقام حاصل ہے،مزدور کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہو نے سے قبل ادا کرنے کا درس ہے ۔۔اسلام نے مستقل ایک نظام پیش کیاہے جسے سامنے رکھ کے ہر دوراور ہر معاشرہ میں مالک و مزدور ہر دو کو مساوی حقوق دلائے جا سکتے ہیں۔یکم مئی کی حقیقت کیا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ انیسیویں صدی کے نصف میں روس میں مزدوروں سے روزانہ انیس بیس گھنٹے کام یا مزدوری لی جاتی تھی اور معاوضہ بہت کم دیا جاتا تھا اتنا بھی نہیں کہ دو افراد اسے پورا کر سکیں پھر وہ اور ان کے بیوی بچے دو وقت پیٹ کیسے بھر سکتے تھے۔ وہ ہاتھ جو فصلیں اگانے اور کٹائی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے ان کے بچے اچھے کھانے کو ترستے تھے وہ جوان اور بوڑھے ہاتھ ہاتھ جو کھڈیوں اور فیکٹریوں میں ہزاروں اور لاکھوں گز کپڑا بنتے ان کی عورتیں اپنے لئے عمدہ لباس کو ترستی تھیں۔ اس زمانہ میں اورفیکٹری کے کسی حصے میں آگ بھڑک اٹھتی تو کئی مزدور جل کرراکھ ہو جاتے تو ان کا کوئی پرسان حال نہ ہوتا۔ سرمایہ دار یہ کہتے ہوئے نظر انداز کر دیتے کہ کام کے دوران حادثات ہو سکتے ہیں ٹھیک ہے ایک حادثہ ہوگیا مزدوری کرتے وقت ایسے حادثات ہو جایا ہی کرتے ہیں انہیں مزدوروں کی وجہ سے خام مال تیار شدہ مصنوعات میں تبدیل ہو رہا تھا۔ زردار سرمایہ دار بن رہے تھے اور سرمایہ دارانہیں غریبوں کا خون چوس رہے تھے۔اوقات کار کا تعین نہ ہونے کے سبب امریکہ میں بھی مزدوروں سے سولہ سولہ گھنٹے کام لیا جانے لگا۔امریکہ اور روس کی متمدن تہذیب کایہ حال تھا کہ وہاں چلانے والے بیل کی طرح مزدور کو مشین چلانے والا ترقی یافتہ جانور سمجھا جاتا تھا اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے غلام سمجھے جاتے تھے اور فطری بات ہے کہ جس قانون میں ظلم ہو انسان اس سے تنگ آ جاتا ہے۔یورپ اور روس کے محنت کشوں نے دس گھنٹے کام کرنے کی تحریک کا آغاز کیا۔ لیکن سرمایہ دار اور جاگیر دار حکومتیں مزدوروں کی ہر جائز جدوجہد کو خلاف ضابطہ قرار دے کر ہمیشہ کے لئے دبانے کے درپے تھیں۔ چنانچہ اس تحریک کو پوری قوت اور بے دردی سے کچل دیا گیا ۔ پھر دوسری مرتبہ امریکی مزدوروں نے یکم مئی1886 میں بے روزگاری اور سرمایہ داروں کے مظالم کے خلاف ہڑتال کا اعلان کیا اس مرتبہ مزدور بپھرے ہوئے تھے اور امریکہ کے صنعتی شہر شکاگو میں فیکٹریاں اور کارخانے بند تھے،کالے اور گورے تمام مزدور امریکی قانون کوبرا بھلا کہہ رہے تھے جس میں مزدور کو تحفظ نہیں تھا اور سرمایہ دار کی ہوس پرستیوں کو روکنے کے لئے کوئی لگام بھی نہیں تھی۔ مزدور نعرے لگا رہے تھے۔اوقات کار میں کمی کرو اتنی اجرت دو کہ زندہ رہ سکیں۔ہڑتال کا آغاز یکم مئی سے ہوااور جب 3 مئی کو بھی ہڑتال رہی تو پولیس نے سرمایہ داروں کے حکم سے ہڑتال کرنے والے مزدوروں پر فائر کھول دیا۔ کئی مزدور ہلاک ہوگئے۔ 4 مئی کو محنت کشوں نے ہلاک ہونے والوں کے سوگ میں ایک اور جلوس نکالا۔ مزدوروں کی ایک بڑی تعداد شکاگو مارکیٹ کے چوراہے میںجمع ہوگئی۔اس مرتبہ پولیس اور فوج نے مل کر حملہ کیا سڑکیں اور دیواریں مزدوروں کے خون سے سرخ ہوگئیں۔اپنے مطالبات منوانے کے لئے جو انہوں نے سفید پرچم اٹھا رکھے تھے سرخ ہوگئے۔ بعض نے اپنی قمیضیں پھاڑکر اپنے بھائیوں کے سرخ خون سے رنگ کے پرچم بنالیے اور اپنے حقوق کے حصول کے لئے انہوں نے جو صدا بلند کی تھی اس کے جرم میں نہ صرف ان کو گولیوں کا نشانہ بننا پڑا بلکہ وہ تختہ دار پر بھی کھینچے گئے ۔ مزدور تحریک کی قیادت کرنے والے مزدور راہنمائوں کو گرفتار کر لیا گیا۔سب کو بے دردی سے سولی پر چڑھا دیا گیا۔آج دنیا کے مختلف ممالک میں اس واقعہ کی یاد میں یہ دن منایا جاتا ہے جس کا آغاز 1886 میں امریکہ کے شہر شکاگو سے ہوا اس سے قبل اس کا وجود نہیں تھا۔ اس دن نے امریکی دہشت گردی اور ظلم کے نتیجہ میں جنم لیا۔ مذہب اسلام کسی پر ظلم کرنا جائزنہیں سمجھتا بلکہ اسلام تو ہر ایک کو اس کے حقوق دیتا ہے اور اسلامی تاریخ نے کبھی کوئی ایسا ظلم کا اجتماعی نظارہ پیش نہیں کیا ہے۔

مزید پڑھیں:  فتح مبین