بھارت کیخلاف قوم متحد

بھارت کیخلاف قوم متحد، افغانستان کے معاملے پر ایک نہیں، فضل الرحمان

ویب ڈیسک: جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ آج ہماری قوم منقسم ہے، جہاں بھارت کیخلاف قوم متحد، وہیں افغانستان کے معاملے پر ایک نہیں، یہ معاملہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔
قائد جمیعت مولانا فضل الرحمان نے یکجہتی فلسطین و خدمات مولانا حامد الحق شہید کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا سمیع الحق شہید اور مولانا حامد الحق شہید کی یاد میں اس طرح اکٹھا ہونا بہت ضروری تھا، ہمارا تعلق اس سلسلے کے ساتھ ہے جہاں رحلتوں اور شہادتوں پر ماتم برپا نہیں کیے جاتے بلکہ شہید ہونے والے کے مشن کو زندہ رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایک تحریک ہیں، ہمیں آگے بڑھنا ہے، تحریک سمندر کی لہروں کا نام ہے، جس میں نشیب و فراز آتا رہتا ہے، لیکن یہ بالآخر سمندر کے کناروں سے ٹکرا کر رہتی ہیں، اکوڑہ خٹک جیسے ادارے محض تعلیمی ادارے نہیں بلکہ یہ نظریات کی بنیادیں ہیں، جو قوم کی رہنمائی کرتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ انگریز کے خلاف 150 سال تک جہاد لڑا گیا، ہزاروں علما کو سولی چڑھایا گیا، لیکن ان علما نے غلامی تسلیم نہیں کی، علمائے کرام نے انگریزوں کے آگے یہ نہیں کہا کہ ہمارا اس جہاد سے کوئی تعلق نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے آج کے حکمران اس وقت بھی انگریز کے وفادار تھے، اور ان کو آج بھی اس کا حق نمک مل رہا ہے۔ آج جغرافیائی تقسیم نے ہمیں ٹکرے ٹکرے کردیا ہے، منقسم جسم اپنا دفاع نہیں کرسکتا، اس وقت ہم ہمہ جہت مشکلات سے دو چار ہیں۔
قائد جمیعت کا کہنا تھا کہ افغانستان میں 20 سال جنگ جاری رہی اور وہ فتح سے ہمکنار ہوئی، ابھی اس کا زخم تازہ تھا کہ فلسطین کا مسئلہ سامنے آگیا، جس طرح افغان طالبان کو دہشت گرد قرار دیا گیا اسی طرح حماس کو دہشت گرد تنظیم ڈیکلیئر کیا گیا، ہمارے ملین اجتماع میں حماس کے نمائندے نے شرکت کی، میں حماس کے نمائندوں کو مجاہد کہتا ہوں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پوری دنیا پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے، ہماری آواز بھی اٹھتی ہے، ہم میدان میں بھی نکلتے ہیں، مشکلات آئیں گے، ہمیں ڈٹے رہنا ہے، فلسطینیوں کی شہادت باعث قرب ہے، اس وقت دنیا میں لابیز کام کر رہی ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے، ہمارے ملک میں بھی یہ لابی کام کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ڈٹ کر کہتے ہیں کہ ایک فلسطین اور کوئی اسرائیل نہیں، جنگ عظیم اول کے بعد یہودیوں کو بسانے اور آباد کرنے کی بات کی گئی، اسرائیلیوں کو جبراً فلسطین میں آباد کیا گیا اور اوور پاپولیٹڈ ایریا میں یہودیوں کو آباد کیا گیا، فلسطین معاشی طور پر کمزور تھا پھر کیوں وہاں یہودیوں کو آباد کیا گیا۔
اپنے خطاب میں فضل الرحمان نے کہا کہ برطانوی وزیر خارجہ بلفور نےایک معاہدے کرکے یہودی ریاست کا قیام عمل میں لایا، اب یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ فلسطینیوں نے زمینیں بیچیں اور یہودی آباد ہوگئے، اس وقت کا اقوام متحدہ کہتا ہے کہ 1966 کے بعد اسرائیل نے جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے وہ ناجائز ہیں، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس امریکا اور یورپ اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ سب جنگی مجرم ہیں، نہ اقوام متحدہ کو سنا جا رہا ہے اور نہ عالمی عدالت کو سنا جا رہا ہے، کیا یہ ادارے صرف ہمارے لیے ہیں؟ عالمی اداروں کو امریکا اور مغرب نے غیر موثر بنایا ہوا ہے، عالمی عدالت اور اقوام متحدہ ہمارے مؤقف کی تائید کرتی ہے، ہم اپنے معاملات کو سلجھانے کے بجائے الجھا رہے ہیں، کشمیر کے مسئلے سے پہلے ہمیں افغانستان کا سوچنا ہوگا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ ہم نے اپنے تعلقات بہتر کیوں نہیں کیے، ظاہر شاہ سے اشرف غنی تک انڈیا کی حمایت والی حکومتیں آئیں، سوائے ملت اسلامیہ کے سب کی حمایت ہندوستان کے ساتھ تھی، ہم سفارتی طور پر غلامانہ ذہنیت کے حامل ہیں، ہر مسئلے کے حل کے لیے فوجی سوچ سے کام نہیں لیا جاسکتا۔
پاک فوج کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ اپنی فوج کو پیغام دیتا ہوں کہ اس بات کا اعتراف کرلو کہ آپ کی پشت پر طاقت ور سیاسی قوت موجود نہیں ہے، ملکی دفاع کے لیے سب مجاہد بن گئے ہیں، لوگ بے وقوف نہیں ہیں، بھارت کیخلاف قوم متحد، لیکن افغانستان کے معاملے پر ایک نہیں، اس معاملے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  صوبائی بجٹ کا مجموعی حجم ساڑھے 1900 ارب روپے تک متوقع ہے، مزمل اسلم