پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے مشترکہ طور پر ایک پریس کانفرنس میں بھارت کے جنگی جنون کا پوری قوت سے جواب دینے کے عزم کا ببانگ دہل دہرا کر اتمام حجت کر دی ہے جبکہ دوسری جانب مودی سرکار بھی بدستور جنگ کی راگ الاپنے میں مصروف ہے اگرچہ کشیدگی پر مبنی حالات میں اس طرح کی صورتحال غیر معمولی نہیں لیکن اس بات کا اندیشہ ہر وقت ضرور موجود رہتا ہے کہ کب کس جانب سے کوئی غلطی اور سہو خطے کو جنگ کی آگ میں جھونک دے۔ پاکستان اور بھارت فوجی کشیدگی کے ایسے دور میں داخل ہو گئے ہیں جہاں اس بار حالات ماضی کی نسبت زیادہ خطرناک نظر آتے ہیں۔جو جنوبی ایشیا کے لئے تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتی ہے واضح رہے کہ ثبوت نہ ہونے کی بنا یہ ایک انتہائی خطرناک کھیل ہے جس کے پورے خطے کے لئے غیر متوقع اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان بھارتی جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کر سکتا ہے اور کرے گا لیکن کسی بھی فوجی محاذ آرائی کا نتیجہ پورے خطے کے لئے مزید ہلاکتوں اور تباہی کا باعث بنے گا۔ لہٰذا، نئی دہلی کو اپنا متحارب لہجہ بدلنا چاہئے اور اس بحران کو مدبرانہ انداز میں حل کرنے کے لئے کام کرنا چاہئے، بی جے پی جس راہ پر چل رہی ہے اس سے پرامن حل کی کھڑکی شاید تیزی سے بند ہو رہی ہے۔اسلام آباد نے بھی جوابی اقدمات کر لئے ہیں دیکھا جائے تو پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ بھی باقی نہیں رہنے دیا جارہا ہے بھارتی لب و لہجے سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ جیسے نئی دہلی نے 2019 کے سبق کو بھلا دیا ہے کہ جب بھارتی جنگی طیاروں کو گرا کر پاکستان نے جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا تھا۔ یہ امریکی سفارت کاروں کی مداخلت تھی جس نے صورت حال کو مزید بگڑنے سے بچایا، بصورت دیگر حالات قابو سے باہر ہوسکتے تھے جس کے خطے کے امن پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے۔بھارتی قیادت شاید اپنے زعم میں جنگی جارحیت سے پیدا ہونے والے آتش گیر ماحول کے نقصانات کو بھول جاتی ہے۔ ان کا یہ یقین کہجنگ فوری نتائج کا حامل ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے اس لئے جنگ ہونی چاہئے انتہائی لغو گمراہ کن خلاف حقیقت اور انتہائی خطرناک ہے۔ جنگ چھیڑنا تو آسان ہے لیکن اسے ختم کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔کوئی بھی ملک کتنابھی طاقتور کیوں نہ ہو، ایک بار جب جنگ چھڑ ہوجائے تو نتائج پر اس کا کوئی اختیار نہیں رہتا۔حالیہ تاریخ میں انتہائی طاقتور ممالک کی جگ ہنسائی کا باعث بننے والی کئی جنگوں سے ہم متعدد اسباق حاصل کرسکتے ہیں۔ ہم ایک عالمی سفارتکار کے جملے سے اتفاق ہی کرسکتے ہیں کہ جنہوں نے کہا تھا، تنازعہ جتنا بڑھتا جاتا ہے، اس کا سفارتی حل نکالنا اتنا ہی مشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ خام خیالی کہ جنگ سے جلد کامیابی مل جائے گی، لامتاہی مسائل کو جنم دے گا۔یہ پاکستان اور بھارت کے معاملے میں ثابت ہوچکا ہے۔ دونوں ممالک ہمیشہ سے ہی تنازعات کی زد میں رہے ہیں پھر چاہے وہ تنازع ظاہری ہو یا خفیہ لامتناعی عدم استحکام اور پیچیدگیوں کا حامل ہی ہوتا ہے پاکستان اور بھارت ایک طویل عرصے سے ایک دوسرے پر پراکسی وار لڑنے کا الزام لگا رہے ہیں اور دونوں میں کشیدگی میں کمی نہ آنے کی ایک بڑی وجہ اس قسم کے حالات اور ا لزام تراشی و عدم اعتماد کا ماحول ہے اگر دونوں ممالک کو خطے کے حالات میں بہتری مطلوب ہے تو اس قسم کی پالیسیوں سے دونوں ممالک کو رجوع کرنا ہوگا۔پہلگام میں جو کچھ ہواوہ افسوسناک امر ضرور ہے لیکن اس سانحے کو بنیاد بنا کر جنگ نہیں چھیڑنی چاہیے۔ جلتی پر تیل چھڑکنا کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔ اس سے پہلے کہ حالات قابو سے باہر ہوں، دونوں فریقین کو پیچھے ہٹنا ہوگا۔جنگ کے نتائج ہمیشہ غیر متوقع ہوتے ہیں اور تصادم سے اکثر غیرارادی نتائج سامنے آتے ہیں۔ جنگوں کے وسیع پیمانے پر پھیلنے کے امکانات موجود ہوتے ہیں جبکہ ان پر بہت زیادہ لاگت آتی ہے اور یہ توقع سے زیادہ لمبے عرصے تک چلتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی تعلقات ٹوٹ جانے کے باعث دونوں ممالک کے درمیان رابطہ زیادہ مشکل ہوچکا ہے لیکن گرما گرمی کم کرنے اور مذاکرات کا ماحول پیدا کرنے کے لیے دیگر بین الاقوامی چینلز کو بروئے کار لایا جانا چاہیے۔2002 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا سنگین خطرہ موجود تھا لیکن عقل و فہم کی جیت ہوئی۔ نہ صرف جنگ کو روکا گیا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان امن کی راہ بھی ہموار ہوئی جس کا عملی مظاہرہ ہم سب نے دیکھا تھا۔ بدقسمتی سے انتہا پسند نریندر مودی کی حکومت نے مذاکرات کے تمام راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔ ایسے میں نئی دہلی نے اس بار پاک-بھارت تنازع کو طول دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن اسے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنگ کے شعلے بھڑکانے سے بھارت کو شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور خطے میں عدم استحکام کسی بھی فریق کے مفاد میں نہیں اور نہ ہی کشیدگی اور جنگ وجدل سے کوئی مسئلہ حل ہوگا بلکہ مزید مسائل ہی جنم لیں گے۔
