بھارتی وزیر اعظم نے چند روز قبل کشمیر کے علاقہ پہلگام میں ہونے والی دہشت گردی میں پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایابلکہ اپنے سعودی عرب کے دورہ کو مختصر کرتے ہوئے واپس آئے تو ساتھ ہی سندھ طاس معاہدہ کو عارضی طور پر معطل کیا جبکہ پاکستانیوں کے ویزے بھی منسوخ کر دئیے۔ اس بھارتی ہرزہ سرائی سے قبل پاکستان نے پہلگام واقعہ کی مذمت کر دی تھی اور بھارتی اشتعال انگیزیوں کا نوٹس لیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ہر اقدام کا ترکی بہ ترکی جواب دیا جائے گا ۔ سندھ طاس معاہدہ کی معطلی پہ تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر پاکستان کا پانی روکا گیا تو یہ کھلی جنگ ہو گی ۔ کیا نو لاکھ فوج کی موجودگی میں دہشت گردی کا یہ واقعہ بھارتی حکومت کی مجرمانہ غفلت نہیں ؟بھارتی حکومت کے سیاسی حریف بھی یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اس واقعہ کے وقت سیکورٹی کہاں تھی ۔ کیا یہ محض وہی ماضی کے ڈرامے ہیں اور دونوں ممالک جنگ کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔ اور یہی لگتا ہے کہ کسی بھی لمحہ جنگ چھڑ سکتی ہے مگر کسی کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے بیچ پرانے بنیادی مسائل حل کیوں نہیں ہو رہے اور کسی بھی واقعہ پر دونوں ممالک ایک دوسرے کو سبق سکھانے کا شور کرنے لگتے ہیں ۔ بد قسمتی سے دونوں طرف کچھ عناصر ، سیاسی مخالفین اور میڈیا ہمیں جنگ میں جھونکنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشمیر ایک حل طلب تنازعہ ہے اور اقوام متحدہ بھی کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کر چکی ہے مگر پہلگام جیسے واقعات کے ہونے اور اس پر منفی سیاسی ہتھکنڈے کشیدگی بڑھا نے اور خطے میں امن کا راستہ روکتے ہیں ۔ ہمارے خطے کی افرادی قوت اور ارضی وسائل دُنیا کے کسی خطے سے کم نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر دو قیادت کی سیاسی تنگ نظری کے ہاتھوں یہ تمام وسائل ہی اب مسائل بن چکے ہیں ۔ پاک بھارت میں مبصرین ذرائع ابلاغ کے ذریعے مسلسل عوام میں جنگ کا رُحجان پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، دونوں طرف سے جذباتی انداز میںغیر حقیقی قوم پرستی کا پرچار کیا جاتا ہے مگر مسائل کے سنجیدہ تجزئیے نہیں ہوتے کہ بر وقت حل نکل سکے ۔ سیاست و تجزیہ کرنے کے مقابلہ میں جنگ لڑنا بڑا مشکل کام ہے ، اس فرق کو صرف میدانِ جنگ میں مارے جانے والوں کے ورثا ہی سمجھتے ہیں ۔ پہلگام جیسے واقعات پہ جنگ کرنا کسی طور مناسب نہیں کہ ان کا تدارک ہو سکتا ہے لیکن جنگ کبھی کسی کے مفاد میں نہیں رہی ۔ خطے میں امن اور معاشی ترقی کا راستہ جنگ نہیں مکالمہ ہے ، اسی حوالہ ماضی میں ہر چند جمہوری حکومتوں نے قدم بڑھائے مگر کسی ایک یا دوسری وجہ سے کامیابی نہ ہو سکی ۔ ہمیں ماضی کی ناکامی سے یہ نہیں سمجھنا چائیے کہ مکالمہ کی کوئی افادیت نہیں ۔ اب بھی دونوں ممالک کو مذاکرات کرنے ہوں گے ، خطے میں استحکام اور معیشت کی بہتری کو یقینی بنانے میں پہل کرنی ہو گی ۔ ہمیں سیاسی تدبر کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے ۔ پاک بھارت آپس میں جنگیں لڑ چکے ہیں ، طرفین کو معلوم ہے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلا اور کیا اثرات پڑے ۔ ایک ایسی نفرت پیدا ہو چکی ہے جو کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتی چلی جا رہی ہے بلکہ گذشتہ چند برسوں میں میڈیا نے دشمنی کو خوب ہوا دی ۔ ہم ایک دوسرے کے قریب آنے کی بجائے دُور ہوتے جا رہے ہیں بلکہ اپنے مُلک میں بھی اس کا شکار ہیں ۔ سوشل میڈیا نے تو اپنوں کو بھی دشمن بنا ڈالا۔ اب ایک بار پھر انہی ذرائع سے صورتحال تشویشناک ہوتی جا رہی ہے، دونوں ایٹمی قوتیں ہیںاور ایسی صورت میں کسی ایک فریق کے فیصلہ کن جنگی بالادستی حاصل کرنے سے ایٹمی تصادم کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کی آبادی پونے دو ارب ہے لیکن دونوں کے حجم، معیشت اور عسکری وسائل میں واضح فرق ہے۔ اسی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں سوچنا ہو گا اور کسی ثبوت کے بغیر ایک دوسرے پر الزام لگانے سے گریز کرنا ضروری ہے ۔ بھارت کی موجودہ حکومت نے بنیاد پرستی میں مبتلا ہو کر اپنے چہرے سے سیکولر ڈیمو کریسی کا نقاب اُتار پھینکا ہے ۔ پاکستان کے خلاف سرجیکل سٹرائیک کا بیانیہ بنایا اور پھر اس پر عمل کرتے ہوئے شرمندگی بھی اُٹھانی پڑی ۔ اسی باعث دوری بڑھتی گئی اور ایک دوسرے سے بات کرنے کے لیے آگے نہ آئے ۔ پاکستانی عوام کو یہ اندیشہ ضرور لا حق ہے کہ کوئی بھی فریق جنگی صورتحال کے موافق قدم اُٹھا سکتا ہے اور اس کے نتائج سے بھی آگاہ ہے لیکن دُنیا کے چند بڑے معاملہ سنبھال سکتے ہیں اور ماضی میں بھی یہی ہوا ہے ۔ اب بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگی تصادم نہیں ہو پائے گا کہ امریکہ چین ، سعودی عرب اور ایران دونوں ممالک کے ساتھ بات کرنے اور معاملہ طے کرنے کو سرگرم ہو گئے ہیں ۔ ایران تو دونوں کے درمیان ثالثی کرنے کو بھی تیار ہے ۔ اس کے علاوہ امریکی صدر نے یہ تسلیم کیا ہے کہ کشمیر ایک دیرینہ مسّلہ ہے اور اُنہوں نے کسی مُلک کی طرف جھکاؤ ظاہر نہیں کیا ۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان کا موقف قابل ِ فہم ہے لیکن براہ راست جنگ سے گریز کرتے ہوئے غیر عسکری اقدامات اُٹھانے ضروری ہیں اور ان دوست مُلکوں سے مثبت تعاون کرنے پہ فوری توجہ دینی چائیے ۔
