ویب ڈیسک: پشاور ہائیکورٹ میں لاپتہ پانچ افراد کی بازیابی کے لئے دائر درخواست پر سماعت جسٹس اعجاز انور، جسٹس ارشد علی اور جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ پر مشتمل بینچ نے کی، دوران سماعت جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیئے کہ بندے پیش کریں، نہیں تو سی سی پی اور آئی جی کیخلاف کارروائی کرینگے۔
جب سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے آئی جی خیبر پختونخوا کو ایک گھنٹے کے اندر طلب کرلیا ، اور قرار پایا کہ لارجر بینچ سماعت ایک گھنٹہ بعد دوبارہ درخواست پر سماعت کریگا۔ وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے درخواست گزار کے گھر سے پانچ افراد 27 اپریل پر اٹھا لئے ہیں، پچھلی تاریخ پر عدالت نے آج سی سی پی او کو بندے پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
وکیل کے دلائل پر جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ سی سی پی او پشاور پیش ہوئے، بندے پیش کیے ہیں، اس موقع پر سی سی پی او نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افراد ہمارے پاس نہیں، تمام 107 چالان پر ضمانتوں پر رہا ہیں۔ جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پولیس کی کارروائی بدنیتی پر مبنی ہے، جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ آئی جی ایک گھنٹے کے اندر پیش ہو جائیں، اور آئی جی لاپتہ افراد کو بھی پیش کریں، اس کے ساتھ ہی عدالت نے درخواست پر سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دی۔
سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو سی سی پی او نے بتایا کہ عمان سے آئی ہوئی خاتون لاپتہ ہے، وہ لاہور آئی تھی اور پھر پشاور، اب لاپتہ ہے۔ درخواست گزاروں کے گھر سے خاتون کا سامان برآمد ہوا ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے گھر سے سامان برآمد ہوا ہے، پھر 107 پر ان کو ضمانت پر رہا کیا ہے، اس پر جسٹس اعجاز انور نے سوال کیا کہ کس قانون کے تحت آپ نے رشتہ داروں کو اٹھایا ہے۔
ایڈوکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ ہمیں تو ایف آئی آر سے روکا گیا تھا، جسٹس ارشد علی نے سوال کیا کہ آپ کو کس نے ایف آئی آر سے روکا ہے۔؟ کہاں لکھا گیا ہے کہ ایف آئی آر درج نہ کریں، جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ نے سوال کیا کہ آپ جو بات کررہے ہیں اے جی صاحب پھر آپ کہیں کہ ہمارے پاس ہے، انہوں نے اے جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے جی صاحب آپ خود مطمئن نہیں ہیں، ہمیں کیسے مطمئن کریں گے۔
جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ ہمارے آرڈر کی خلاف ورزی کی گئی ہے، بندے پیش کریں، نہیں تو سی سی پی اور آئی جی کیخلاف کارروائی کریںگے، جسٹس صاحبزادہ اسداللہ نے کہا کہ اے جی صاحب اس دن سے ڈریں جب آپ کے لوگ یہاں کھڑے ہوں اور کہیں کہ ہمارے اے جی صاحب لاپتہ ہیں، انہیں بازیاب کرائیں۔
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ تعلیم یافتہ اور معزز لوگ محفوظ نہیں تو اور لوگوں کا کیا ہوگا، بندے پیش نہیں کرے گے تو پھر ہم توہین عدالت نوٹس جاری کرکے آئی جی اور سی سی پی او کے خلاف کارروائی کریں گے۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ خاتون کا سامان درخواست گزار کے گھر سے برآمد ہوا ہے، جسٹس اعجاز انور نے فوری سوال کیا کہ جو سامان ریکور کیا ہے وہ ابھی پیش کریں، اس کے ساتھ ہی عدالت نے وقفہ کیا اور کہا کہ کچھ دیر بعد کیس دوبارہ سنیں گے۔
سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو صدر ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن امین الرحمن ایڈوکیٹ نے بتایا کہ ہماری بات جیت چل رہی ہے، سابق صدر ہائیکورٹ بار فدا گل ایڈووکیٹ نے بھی کہا کہ یہ درخواست واپس کرلیں، بندے واپس آجائیں گے، میں ذمہ داری لیتا ہوں۔ جسٹس صاحبزادہ اسداللہ کا کہنا تھا کہ آپ ایسا کیوں نہیں کرتے، بندے واپس لائیں، اس درخواست کو نمٹائیں گے۔ جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے کیا عدالتوں کی اتنی حیثیت رہ گئی ہے، یہ معمول بن گیا ہے، کہ کیس واپس لیں پھر بندے واپس آئیں گے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ایسا چلتا رہا تو پھر لوگ عدالت نہیں آئیں گے۔ جسٹس صاحبزادہ اسداللہ کا کہنا تھا کہ آپ کی باتوں سے ہم نے اخذ کیا کہ یہ بندے آپ کے پاس ہیں۔ صبح یہ کہتے تھے کہ ہمارے پاس نہیں، اب کہتے ہیں کہ ہم چھوڑ دینگے۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ تو آپ پر انگلی اٹھ رہی ہے، کہ بندے آپ کے پاس ہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ آئی بی کے پاس ہیں، اور آئی بی تو وزیراعظم کے انڈر ہیں۔
جسٹس سید ارشد علی نے سوال کیا کہ پھر ہم وزیراعظم اور اٹارنی جنرل کو بلاتے ہیں، ہم لارجر بنج بنائیں گے، فل کورٹ بیٹھ جائے گا، اس کیس کو سنیں گے۔ بندے کو حراست میں لیا ہے تو اس کو قانون کے تحت بنائیں، آپ کو کس نے روکا ہے، آپ ایف آئی آر درج کرلیں۔ ایڈوکیٹ جنرل شاہ فیصل اتمانخیل کا کہنا تھا کہ باہر سے آئی خاتون لاپتہ ہوئی ہے، جسٹس سید ارشد علی نے کہا کہ جن پر الزام ہے ان کو گرفتار کرلیں، ان کا ریمانڈ لیں۔
جسٹس صاحبزادہ اسداللہ نے کہا کہ فدا گل ایڈووکیٹ صاحب نے اردو میں بات کی، کہ درخواست واپس لیں، بندے آجائیں گے، جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ یہاں یہ معمول بن گیا ہے کہ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کیا تو اب یہ واپس نہیں آئے گا۔ کسی پر الزام نہ ہو تو اس کو کیسے گرفتار کرسکتے ہیں۔
جسٹس صاحبزادہ اسداللہ کا کہنا تھا کہ بندے رہا کردیں یا ایف آئی آر درج کرلیں، ہمیں پھر بتا دیں۔ اس پر جسٹس اعجاز انور کا کہنا تھا کہ اگر بندے رہا نہ ہوئے تو پھر وفاقی حکومت کے ذمہ داروں کو بھی بلائیں گے۔ اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل اتمانخیل نے عدالت کو بتایا کہ ہم اس میں ایف آئی آر درج کررہے ہیں، تھوڑی دیر میں ہم ایف آئی ار درج کرلیں گے، ہمارے پاس بندے موجود نہیں، اگر ہوتے تو پیش کرتے۔
جسٹس اعجاز انور کا کہنا تھا کہ ہم اس کے لئے فل کورٹ بناتے ہیں، تو پھر وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے متعلقہ حکام کو نوٹس جاری کرتے ہیں، اور فل کورٹ اس کیس کو سنے گا۔
جسٹس سید ارشد علی نے کہا کہ آپ ایف آئی آر درج کرلیں، بندے ہمارے آرڈر کے بغیر گرفتار نہیں کریں گے۔ آپ ایف آئی آر کرسکتے تھے، آج تک ایف آئی آر درج نہیں کی، جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ پریکٹس ختم کرلیں کہ پہلے بندی کو گرفتار کرتے ہیں اور بعد میں ایف آئی آر درج کرتے ہیں۔ آج تک آپ نے ایسا ثبوت پیش نہیں کیا کہ خاتون کس کیس میں ملوث ہے، اور کہاں ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل اتمانخیل نے عدالت کو بتایا کہ اس کیس میں خاتون بھی مسنگ ہے، جسٹس سید ارشد علی نے مزید کہا کہ ہم نے آپ کو ایف آئی آر سے نہیں روگا، ہونا چاہئے تھا آپ ایف آئی آر درج کرتے، آپ نے ایف آئی آر درج نہیں کی۔ یاد رہے کہ پشاور ہائیکورٹ میں لاپتہ پانچ افراد کی بازیابی کے لئے دائر درخواست پر سماعت جسٹس اعجاز انور، جسٹس ارشد علی اور جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ پر مشتمل بینچ نے کی، دوران سماعت جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیئے کہ بندے پیش کریں، نہیں تو سی سی پی اور آئی جی کیخلاف کارروائی کرینگے۔
