سابق صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک متنازعہ بیان دیا ہے کہ جس کی ان سے توقع نہیں تھی قارئین کرام میں اکثر یہ کہتاہوں ہم نے اپنی سیاسی جماعت کو آگے رکھا ہے اور اسی وجہ سے پاکستان آج پیچھے ہیں، اسی طرح ہم نے اپنے مسلک کو آگے رکھا ہے اور اسی وجہ سے اسلام آج پیچھے ہے، اور اس ساری صورت حال کی ایک بڑی وجہ شخصیت پرستی ہے جس کا مطلب کسی کی محبت میں اس حد تک مبتلا ہو جانا ہے کہ اس کے عیب بھی آپ کو خوبیاں نظر آئیں، شخصیت پرستی ذہنی غلامی کی ہی ایک قسم ہے، نبی کریمۖ نے فرمایا تھا کہ کسی چیز سے تمھاری محبت تمھیں اندھا اور بہرہ بنا دیتی ہے، ( ابوداؤد)، شخصیت پرستی ایک نفسیاتی عارضہ ہے جہاں متاثرہ فرد کی ذہنی توجہ ایک مخصوص شخصیت کے گرد گھومتی ہے، یہ شخصیت کسی بھی میدان سے تعلق رکھ سکتی ہے لیکن عموماً اس کا تعلق مذہب یا سیاست سے ہوتا ہے، اس شخصیت کے پرستار ہمیشہ اپنی شخصیت کے ذریعے اثر پیدا کرنے یا توجہ مبذول کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی سوچ کا مرکز عقل سے زیادہ جذبات پر ہوتا ہے، نتیجے کے طور پر ان کی دوستی اور دشمنی انتہائی خطرناک ہوتی ہے، ہمارے معاشرے میں موجود مذہبی جنونیت اور سیاسی چبقلش کو دیکھ کر آپ اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں، شخصیت پرست ہر چیز کو اپنی شخصیت کی عینک سے دیکھتا ہے اور یہ بنیادی طور پر ایک منفی طرز عمل ہے جس کا نقصان نہ صرف فرد کو ہوتا ہے بلکہ معاشرہ بھی اس نقصان کی زد میں آتا ہے، ایسی صورت میں انسان حق و انصاف اور عقل و فکر کے تمام پہلوؤں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی زندگی کے تمام گوشوں میں فیصلہ کسی شخصیت کی تقلید اور اس کی اندھی پیروی کی بنیاد پر کرتا ہے، قارئین کرام میری ناقص رائے میں اس سب کا آغاز مذہبی شخصیت پرستی سے ہوتا ہے کہ جب ہم زندگی کے کسی بھی معاملہ کو شریعت یا حق کی کسوٹی پر پرکھنے کے بجائے، آنکھوں پر اپنے مذہب یا مسلک کی پٹی باندھ کر کسی کی پیروی کرتے ہیں، دینی مسائل میں قرآن و سنت اور فطرت انسانی کے معیارات کو چھوڑ کر شخصیتوں کے اقوال کو اختیار کرتے ہیں، اور جب ہم ایسی شخصیت پرستی میں مبتلا ہو جاتے ہیںتو سوچنے اور سمجھنے کی اپنی صلاحیتوں کو کسی اور کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں اور نتیجتاً ہم ویسا ہی سوچتے ہیں اور ویسا ہی دیکھتے ہیںجیسا کہ وہ شخص ہمیں دکھاتا ہے، شخصیت پرستی کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ہم ایک طرح سے دوسروں کو خودسے بہتر قرار دیتے ہیںاور اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کو دوسروں کے ساتھ مشروط کر لیتے ہیں، ہم اپنی سوچ اور سمجھ کو بالائے طاق رکھ کر دوسروں کی مرضی و احکام کے مطابق چلتے ہیں اور ایسا ہی کچھ عارف علوی نے بھی کیا ہے، نہ اپنے مرتبے کا لحاظ کیا ہے اور نہ ہی اپنے مقام کو ملحوظ خاطر رکھا ہے، میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ ایسی شخصیت پرستی شرک کی طرف لے جانے والی شے ہے اور اس سے بچنا ہم سب پر لازم ہے، مجھے یاد ہے کہ قریبا دس سال پہلے میں نے ایک کالم لکھا تھا کہ جس کا عنوان تھا ہیرو اور زیرو، اور اس میں میں نے یہ کہنے کی کوشش کی تھی کہ ہمارے سیاسی راہنماؤں میں کوئی بھی ہیرو یا زیرو نہیں ہے، ہر کسی میں خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں اور معیار کوئی بھی شخصیت نہیں بلکہ حق اور انصاف ہے، اگر ہم تاریخ کا سرسری سا مطالعہ بھی کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی ابتدا شخصیت پرستی سے ہی ہوئی ہے، گزشتہ اقوام میں جب کوئی نبی یا کوئی معزز شخص دنیا سے کوچ کر جاتا تھا تو ان کے پیروکار اس کی یاد میں تصویریں اور مجسمے بناتے تھے اور دھیرے دھیرے ان کی تعلیمات کو بھلا کر صرف انہی مجسموں کی پرستش کرنے لگے تھے، اسی طرح قرون اولیٰ میں مسلمانوں کا یہ عمل رہا ہے کہ وہ مسالک کے تعصبات سے پاک تھے،جن مسائل کے بارے میں انھیں علم نہیں ہوتا تھا انہیں کسی بھی مکتب فکر کے مستند عالم دین سے پوچھ لیتے تھے، لیکن بعد میںلوگ مسلک کے معاملے میں تعصب سے کام لینے لگے، مسلک کی اتباع میں انھوں نے اس حد تک غلو کیا کہ اپنے آئمہ اور فقہاء کو انبیاء کے درجے تک پہنچایا ، کتاب و سنت کی اتباع کو بالائے طاق رکھ دیا اور اس تعصب کی وجہ سے وہ حق سے کوسوں دور ہوتے گئے، کسی متعین مسلک کی اتباع سے کہیں زیادہ اہم اللہ پاک کے بھیجے ہوئے اصل دین پر عمل کرنا ضروری ہے، ہم اسی کے مکلف ہیں اور ہم سے اسی کے بارے میں سوال ہو گا، یاد رہے کہ اب دنیا میں کوئی بھی انسان معصوم عن الخطاء نہیں ہے، ہر انسان سے غلطی ہو تی ہے، ہم پر لازم ہے کہ لوگوں کی اچھی باتوں کو لیں اور بری باتوںکو چھوڑ دیں، قارئین کرام آپ سب کے ساتھ میں بھی عارف علوی صاحب کے اس متنازعہ بیان کی بھرپور مذمت کرتا ہوں لیکن صرف مذمت کافی نہیں ہے جیسا کہ ہمارا عمومی رویہ ہے کہ ہر معاملے میں مذمت کر کے خود کو بری اس ذمہ سمجھتے ہیں، یہاں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ایک اہم عہدے پر فائز رہنے والے شخص کو بھی اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ اسے کسی بھی معاملے میں کس انداز میں گفتگو کرنی ہے اور ایک حساس معاملے میں اپنی رائے دینے سے گریز کرنا ہے۔
حق پرستی کو ہمیشہ برا سمجھا گیا
چاپلوسی کے ہنر کو ہی وفا سمجھا گیا
