30اپریل کو شائع ہونے والے کالم میں ہم نے دو معاہدوں کا ذکر کیا تھا ‘ تاہم کالم کی تنگ دامنی کی وجہ سے صرف ایک ہی موضوع کا بھی بمشکل احاطہ کر سکے تھے ‘ دراصل کچھ مسائل بالکل شیطان کی آنت کی طرح ہوتے ہیں جن پر جتنا بھی لکھیں کم ہی لگتا ہے ‘ اس لئے اگرچہ اپنے کالم میں آج کل کے سب سے اہم بلکہ گرما گرم موضوع یعنی سندھ طاس معاہدے کا ذکر کرنا زیادہ ضروری سمجھا اور اسے اولیت کا درجہ دیتے ہوئے اس پر چند گزارشات پر ہی اکتفا کرتے ہوئے اسے سمیٹنے کی کوشش کی حالانکہ جیسا کہ گزارش کی ہے کہ لکھنے پر آجائیں تو اس موضوع پر مزید کئی کالم تحریر کئے جا سکتے ہیں لیکن مسئلہ وہی کے کالم کی گنجائش کے مطابق ہی خود کو محدود رکھنا پڑتا ہے جبکہ کالم کے اختتام تک پہنچ کر دوسرے معاہدے کو اگلے (آج) کالم میں زیر بحث لانے کی بات کی تھی اور وہ دوسرا معاہدہ جس کا بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ تنسیخ کے بعد پاکستان میں ایک بار پھر گونج سنائی دی اور جس نے بھارت کے اندر کھلبلی مچا دی ہے یعنی اگر بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو بزعم خویش ختم کرنے کی غلطی کی تو پاکستان شملہ معاہدے کو ختم کرے گا جس پر اب تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ محولہ معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کے اقدام پر پاکستان نے بھارت کو باقاعدہ طور پر نوٹس دینے کا فیصلہ کر لیا ہے کہ اصولی اور قانونی راستہ بھی یہی ہے تاکہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے اتمام حجت کر لی جائے جبکہ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بار پھر اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی اعلان جنگ ہو گا ایک ٹی وی انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کا پانی روکنے کے لئے کوئی بھی سٹرکچر بنایا تو اسے تباہ کر دیں گے۔ یوں گویا پہلے رانا ثناء اللہ اور اب خواجہ آصف نے مرزا غالب کے اس مصرعے کی یاد دلادی ہے کہ
ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عذر مستی ایک دن
یہ سلسلہ تو خیر چلتا رہے گا اور اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بھارت کو پہلگام کے خفیہ ڈرامے کی اصل دستاویزات لیک ہونے کی وجہ سے خاصی سبکی ہو رہی ہے دنیا میں اس کے بیانئے کو تسلیم نہ کئے جانے کی وجہ سے خود بھارت کے اندر بھارتی سکیورٹی اداروں اور سیاسی و عوامی سطح پر ہزیمت کا سامنا ہے اس لئے بالآخر نتیجہ کیا نکلتا ہے اس حوالے سے پشتو کے ایک ضرب المثل کا تذکرہ کرنا پڑے گا جس کا مفہوم ہے کہ مقدمے کے انجام پر نظر رکھو ‘ بہرحال اس معاملے کو فی الحال ایک جانب رکھتے ہوئے اپنے دوسرے موضوع پر آتے ہیں یعنی شملہ معاہدہ ‘ جس کی تنسیخ کی دھمکی پاکستان نے دی ہے ‘ شملہ معاہدہ کیا ہے ؟ اس حوالے سے بھی آج کی نوجوان نسل کو پہلے تو شاید معلوم ہی نہ ہو اور اگر ہو بھی تو ممکن ہے زیادہ تفصیل سے وہ اس کے بارے میں نہ جانتی ہو کہ جس دور میں یہ معاہدہ ہوا تھا تب یہ نوجوان نسل یا تو پیدا ہی نہیں ہوئی ہو گی یا پھر شاید اکثر کی عمریں دو تین یا چار سال سے زیادہ نہیں ہو گی ۔ 70ء میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں کئی عوامل کارفرما تھے ‘ عوامی لیگ چھ نکات کے نام سے ایک پروگرام لے کر انتخابی میدان میں اتری تھی جو درحقیقت پاکستان سے علیحدگی کا پروانہ تھا ‘ اور جس کی بنیاد سابقہ مشرقی پاکستان کے ” محرومیوں”کی نوحہ گری پر رکھی گئی تھی ان مبینہ محرومیوں میں مغربی پاکستان کے پالیسی سازوں کا بھی کچھ نہ کچھ ہاتھ ضرور تھا چھ نکات کے پروگرام پر سابقہ مشرقی پاکستان میں کلین سویپ کے بعد مگر جنرل یحییٰ خان نے اقتدار کی عوامی لیگ کو منتقل کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش شروع کر دیں جس کی وجہ سے شیخ مجیب کے لہجے میں تلخی بڑھتے بڑھتے زہر ناکی میں تبدیل ہوتی چلی گئی اور اس کے جلسوں میں پاکستان سے الگ ہونے کی چتائونیاں حالات کے تنائو میں شدید ترین صورت اختیار کرتی چلی گئیں ‘ شیخ مجیب کو گرفتار کرکے مغربی پاکستان منتقل کر لیا گیا تو ایک جانب عوامی لیگ کی سیاسی قیادت نے بھاگ کر بھارت میں پناہ لی جبکہ دوسری جانب عوامی لیگ کے ”عسکری” ونگ مکتی باہنی نے بھارتی فوج کے ساتھ مل کر پاکستانی افواج پر چھاپہ مار جنگ مسلط کی اور جس سیاسی قیادت نے بھارت میں پناہ لی اس نے بھارت سے درخواست کی کہ انہیں پاکستان سے ”آزادی”دلانے میں مدد دی جائے اس صورتحال سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے اپنی افواج مشرقی پاکستان میں داخل کرکے جنگ چھیڑ دی ‘ اس سے پہلے گنگا نام کے ایک بھارتی طیارے کے اغواء اور اسے لاہور میں اتارنے اور ازاں بعد آگ لگا کر بھسم کرنے کے واقعے کے بعد بھارت نے اپنی فضائی حدود میں پاکستانی جہازوں کی پروازوں کے لئے بند کر دی تھی ‘ یوں مشرقی پاکستان کی کمک پہنچانے کی راہیںمسدود ہو چکی تھیں(گنگا طیارے کا اغواء ایک سوچی سمجھی سازش تھی جس کی تفصیل پھر کبھی سہی) مختصراً یہ کہ بھارتی افواج اور مکتی باہنی نے مل کر مشرقی پاکستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے میں اہم کردار اداکرتے ہوئے تقریباً 90 ہزار (فوجی اور سویلین) افراد کو قیدی بنا کر بھارت کے مختلف علاقوں میں کیمپوں میں منتقل کر دیا مغربی پاکستان میں جو تب سے ”پاکستان” کہلاتا ہے ‘ ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو اپنے جنگی قیدیوں کی رہائی کے لئے عالمی سطح پر کوششیں شروع کر دیں اگرچہ انسانی اور خصوصاً اسلامی تاریخ میں اس سے پہلے اتنی بڑی تعداد میں جنگی قیدیوں کا کوئی سانحہ سامنے نہیں آیا اور اسی وجہ سے بھارتی پردھان منتری اندراگاندھی نے اس پر رعونت بھرے لہجے میں کہا کہ ہم نے بھارت پر مسلمانوں کے ہزار سالہ حکمرانی کے دوران ہندوئوں کی غلامی کا بدلہ لے لیا ہے اور دوسری بات یہ کی کہ ہم نے دو قومی نظریئے کو خلیج بنگال میں ڈبو کر غرق کر دیا ہے ‘ اگرچہ ان دونوں باتوں کا مسکت جواب تاریخ نے دیا ہے تاہم اصل موضوع پرآتے ہیں اور وہ ہے شملہ معاہدہ ‘ اور جب ان جنگی قیدیوں کی واپسی کے لئے بھارت کے پرفضا مقام شملہ میں اندر اگاندھی اور ذوالفقار علی بھٹو کے مابین مذاکرات کاڈول ڈالا گیاتو جو معاہدہ ہوا اس نے بھارت کو بہت فائدہ پہنچایا اور وہ یوں کہ دیگر شقوں کے علاوہ معاہدے میں یہ بھی طے پایا کہ کشمیر کے مسئلے پر(جو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے طفیل اہمیت کا حامل اور دو طرفہ تنازعہ تھا)یہ طے کیا گیا کہ جب تک دونوں ملک باہمی رضا مندی ظاہر نہیں کریں گے اس مسئلے کو کسی بھی فورم پر نہیں اٹھایا جائے گا اس کے بعد پاکستان نے جب بھی اس مسئلے کو اٹھانے اور ثالثی کے لئے دنیا کو پکارا تو بھارت نے اسے صرف ”دوطرفہ” مسئلہ کہہ کر کسی بھی عالمی فورم پر زیر بحث لانے سے انکار کر دیا اور یہی وہ نکتہ ہے جسے اگر پاکستان کے معطل کرنے کا اعلان کر دیا تو بھارت کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے
