پہلگام ہندو اور مسلم ہیرو اجداجدا

پہلگام حملے کو بھارت کے انتہا پسند ذہن نے ہند ومسلم خلیج کو بڑھانے کے لئے استعمال کیا۔یہ افسانہ تراشا گیا کہ حملہ آوروں نے مذہب پوچھ کر گولیاں چلائیں۔پھر یہ اضافہ ہوا کہ پتلونیں اتروا کر گولیاں چلائیں۔اب ایک مقتول کی بیوہ نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوامگر مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کا جو کام ان افسانوں سے لیا جانا تھا لیا جا چکا ہے۔پہلگام کے واقعے میں کشمیری مسلمان عادل حسین شاہ کی قربانی کا ذکر ہوا نہ اپنی جانوں پر کھیل کر ریلیف اور ریسکیوکا کام کرنے والے مقامی افراد کے کردار کو سراہا گیا۔بھارتی میڈیا اور انتہا پسندوں نے اس سارے واقعے میں بھارتی نیوی کے افسر سیلش کلاتھیا کو اپنا تنہا ہیرو بنائے رکھا اور اس خانے میں عادل حسین شاہ کی قربانی کا ذکر مکمل طور پر گول کر دیا گیا۔اس رویے کے بعد ہی پہلی بار بھارت کا مسلم پریس کھل کر سامنے آیا اور اس نے نہ صرف یہ کہ عادل حسین کو مسلمانوں کی مروت رواداری اور ایثار کی نشانی کے طور پر پیش کرنا شروع کیا بلکہ کشمیریوں کے مجموعی کردار اور رویے کی تعریف بھی کھل کر کی گئی۔یہ کئی دہائیوں بعد بھارت کے مسلم پریس کا یہ رویہ پہلی بار دیکھا گیا ہے۔نریندرمودی نے پانچ اگست کا فیصلہ کشمیری مسلمانوں کو تنہا کرنے اور ان کی انڈینائزیشن اور کشمیر کی ہندوائزیشن کی خاطر اٹھایا تھا کہ مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کے مسائل ایک جیسے ہوگئے۔اب بھارت کا بننے والا مرکزی قانون جو جامع مسجد دہلی پر اثر انداز ہوتا ہے تو بیک وقت وہ جامع مسجد سری نگر پر بھی اثرات مرتب کرتا ہے۔اب کشمیر میں داخلی حکومت،اسمبلی اور کوئی ادارہ اس راہ میں حائل نہیں ہوسکتا۔اب بھارت کے مرکزی قوانین کی کشمیری اسمبلی سے توثیق ہونا ضروری نہیں رہا۔اس تبدیلی کے بعد اب کشمیر کے اسی لاکھ مسلمانوں کو بھارت کے چوبیس کروڑ مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیا اور بھارت کے کروڑوں مسلمانوں کو بھارت کے ڈھانچے میں ایک ایسی مسلم اکثریتی ریاست مل گئی جس میں اسلامی روایات اور اقدار کی جڑیں بہت گہری ہیں۔یوں دونوں کے درمیان ایک واضح دوری اور فاصلہ ختم ہوگیا۔کشمیری مسلمانوں پر بھارت کی مسلم آبادی کی بازیافت ہوئی تو بھارتی مسلمانوں کو مجموعی ڈھانچے میں مسلم اکثریتی ریاست کا ساتھ مل گیا۔گوکہ کشمیری مسلمان نظر یاتی طور پر پاکستان کے ساتھ وابستہ رہے اور سات دہائیوں تک یہ کیفیت برقرار رہی۔یہ نظریاتی تعلق عملی تعلق میں کم ہی ڈھلتا رہا۔سوائے ان گنے چنے چند برسوں کے جب پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی نہیں ہوتی تھی مگر ایسا تاریخ میں بہت کم ہی ہوا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارت نے اس تعلق کو مشکل بنانے اور کاٹنے کے لئے انتظامی اور عملی اقدامات اٹھائے۔نوے کی دہائی میں جنرل پرویز مشرف کو نیوٹرل کرتے ہوئے بھارت نے کنٹرول لائن پر باڑھ لگانے میں کامیابی حاصل کی اور اس سے کشمیریوں کی پاکستان سے عملی دوریوں کا سلسلہ مضبوط ہوگیا۔پانچ اگست کے بعد بھارت نے اس تعلق کے رہے سہے امکانات کو بھی ختم کر دیا۔اس کے برعکس بھارت کی مسلم تہذیب کے ساتھ کشمیریوں کے تعلق میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی۔ماضی میں بھارتی اورکشمیری مسلمانوں کے درمیان ایک خلیج قائم تھی۔اس دوری کی کئی وجوہات تھیں۔سب سے پہلی وجہ بھارتی ڈھانچے میں کشمیر کی الگ شناخت اور اس کی متنازعہ حیثیت تھی۔بھارتی مسلمان کشمیریوں کے ساتھ سیاسی راہ ورسم رکھتے ہوئے جھجک محسوس کرتے تھے۔بھارتی مسلمانوں کا مذہبی اور سیاسی طبقہ یہ سمجھتا تھا کہ کشمیری مزاجا بھارت گریز ہیں اور ان کے دل ودماغ میں پاکستان سمایا ہوا ہے۔اس لئے کشمیریوں کے ساتھ سماجی اور سیاسی تعلق رکھنے سے ان کی حب الوطنی پر بھی شکوک کے بادل منڈلانے لگیں گے۔اسی طرح وہ کشمیریوں کے مطالبہ ء آزادی کو اپنی بربادی کے زاویے سے دیکھتے تھے۔ان کو خوف تھا کہ قیام پاکستان سے ان پر جو عملی افتاد پڑنا تھی وہ تو پڑ گئی مگر اس فیصلے کو بھارتی مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے دیوار سے لگانے کے لئے استعمال کیا گیا۔ان کی نسلیں قیام پاکستان میں اپنے کردار کی وضاحتیں پیش کرتے ختم ہوتی چلی گئیں۔ان کو یہ خوف لاحق تھا کہ کشمیرکی بھارت سے علیحدگی ان کے لئے سماجی اور سیاسی اور اقتصادی طور پر قیام پاکستان کے بعد دوسرا ایٹم بم ثابت ہوگی۔اس لئے بھارتی مسلمانوں نے کشمیریوں کے ساتھ فاصلہ بنائے رکھا اور کشمیری مسلمانوں کو یہی گلہ رہا کہ بھارتی مسلمان انہیں اپنی بقا کی عینک سے دیکھتے ہیں ناکہ ایک اصول کی بنیاد پر۔کشمیری مسلمان اپنی شناخت گم ہونے کے خوف سے مجموعی طور پر بھارت سے دور رہے اور اس دوری کی زد بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ان کے سماجی اورسیاسی تعلق پر بھی پڑتی رہی۔نریندرمودی نے پانچ اگست کا قدم اٹھا کر یوں تو کشمیر کو بھارت کے دھارے میں شامل کرلیا مگر حقیقت میں مسلم کشمیر کو مسلم بھارت کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔یہ وہ مقام ہے جب بھارت کے ڈھانچے میں ایک موہوم اور اچھے دنوں کی امید پر بیٹھے بھارتی مسلمانوں کے پاس عزت کے ساتھ جینے کے آپشن بہت کم رہ گئے ہیں۔سماجی طور پر وہ تو تنہائی کا شکار تھے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی نے انہیں سیاسی طور پر بھی بے اثر اور تنہا کر دیا ہے۔سماجی تنہائی کا عالم یہ ہے کہ ممبئی جیسے شہر میں شبانہ اعظمی اور دوسرے مسلمان فنکاروں کو کرائے پر مکان نہیں ملتے۔نام پوچھتے ہی مالک مکان دروازہ بند کردیتا ہے۔ دہشت گردی کا واقعہ دور کشمیر پہلگام میں ہوتا ہے۔کشمیری اس پر کھل کر احتجاج بھی کرتے ہیں مگر بھارت کا ایک سابق بیوروکریٹ اویناش شرما ادھیکاری کہتا ہے کہ اسلام ایک لعنت ہے اور ہر ہندوستانی کو اس جنگ میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔بنگالی کے اپوزیشن لیڈر سویندو ادھیکاری کہتے ہیں کہ جس طرح اسرائیل نے غزہ کے مسلمانوں کو تہ تیغ کیا اسی طرح کشمیری مسلمانوں نیست ونابود کرنے کی ضرورت ہے۔بھارت کے مسلم پریس کا ان خیالات پر چونک جانا قطعی عجب نہیں۔ لامحالہ انہیں بھارت میں ابھرنے والے ان تباہ کن رجحانات کی گرفت کرنا پڑ رہی ہے۔دوسری طرف سیاسی تنہائی کاحال یہ ہے کہ ایک ارب سے زیادہ آبادی کے حامل بھارت کے انتظامی ڈھانچے میں ایک بھی مسلمان وزیر نہیں اور پارلیمنٹ میں ان کا وجود آٹے میں نمک کے برابر ہو کر رہ گیا ہے۔سیاسی میدان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے پیدا کردہ مسلم گریز رجحانات اب کانگریس اور دوسری سیکولر جماعتوں کی پالیسیوں پر بھی اثرات مرتب کررہے ہیں اور انہوں نے بھی انتخابی ٹکٹو ں اور نمائندگی کی صورت میں مسلمانوں کا کوٹہ محدود کرنا شروع کر دیا ہے۔یہ تیزی سے بڑھتی ہو ئی سماجی تنہائی آگے چل کر کسی بڑے حادثے کا باعث بن سکتی ہے۔مغربی دنیا میں بھارت کے مسلمانوں کے حوالے سے جاری ہونے والے تھرٹ الرٹ قطعی بے سبب نہیں۔ایسے میں کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کے درمیان روابط تیز ہورہے ہیں تو یہ دونوں کی بقا کا معاملہ ہے۔اب جامع مسجد سری نگر اور جامع مسجد دہلی اور جامع مسجد سری نگر اور دارالسلام حیدرآباد کے درمیان روابط قائم ہورہے ہیں۔میرواعظ عمر فاروق شاہی مسجد کے امام اور حیدر آباد کے مسلم راہنما بیر سٹر اسد الدین اویسی سے زیادہ اعتماد کے ساتھ گھل مل رہے ہیں تو بھارت کا مسلم پریس زیادہ اعتماد کے ساتھ کشمیری مسلمانوں کی وکالت کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔یہ بدلتے ہوئے حالات کی ایک نئی جہت ہے۔

مزید پڑھیں:  بھارت تو لاجواب ہوا یا نہیں ہوا