روزگار دو ورنہ لوگ بھیک مانگیں گے

کنفیوشس نے معاشرے کی تباہی کو محنت نہ کرنے سے مشروط کیا ہے۔ محنت کیا ہے ؟ یہ ہمارے ہاں لوگوںکو شاید معلوم نہ ہو ،ہر معاشرے میں ہر فرد کا ایک کردار ہوتا ہے جس کی ادائیگی میں محنت درکار ہوتی ہے۔ جن معاشروں میں سب لوگ محنت کرتے ہیں وہ معاشرے ترقی کرجاتے ہیں اور جن معاشروں میں زیادہ لوگ محنت نہیں کرتے وہ زوال کا شکار ہوجاتے ہیں۔ امریکہ ، یورپ ، جاپان ، چین ، جنوبی کوریا ، سنگاپور وغیرہ میں جو ترقی ہمیں نظر آرہی ہے وہ صرف اور صرف محنت کی بدولت ہے۔ پاکستان کی آبادی اس وقت پچیس کروڑ کے قریب ہے۔ لیکن اگر کام کرنیوالوں کا شمارکیا جائے تو پاکستان کی ستر فیصد آبادی کوئی کام نہیں کرتی اور نہ ہی ان کو احساس ہے کہ ان کے کام نہ کرنے کی وجہ سے ملک تباہی کی طرف جارہا ہے۔ اس وقت اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سکول سے فارغ آبادی کا تناسب بیس فیصد سے بھی کم ہے۔ جبکہ اگران لوگوں کا شمار کیا جائے جو صرف اپنا نام لکھ اور پڑھ سکتے ہیں ان کی تعداد بیالیس فیصد ہے۔ ہم اس وقت دنیا کے ان ممالک میں شامل ہیں جہاں شرح خواندگی انتہائی کم ہے۔ اور ہمارا نظام تعلیم اور معیار تعلیم بھی بدترین معیارات کا حامل ہے۔ ملک میں اس وقت بے روزگاری بہت زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں بیشتر لوگ سرکاری نوکری کو ہی روزگار سمجھتے ہیں جبکہ دنیا میں کام کرنیوالوں کوبرسرروزگار سمجھا جاتا ہے۔ لوگوں کو روزگار دینے کا کام حکومتوں کا ہے مگر ہماری حکومتیں اس فلسفے کو ابھی تک نہیں سمجھ پائیں کہ لوگوں کو روزگار دینے کیلئے ماحول اور سہولیات دینا ہی حکومت کا کام ہے۔ انہیں سرکاری خزانے پر بوجھ بنا نا حکومت کا کام نہیں ہے۔ دنیا بھر میں روزگار زیادہ تر صنعتی ترقی سے وابستہ ہوتا ہے۔جس ملک کی پیداواری صلاحیت جتنی زیادہ ہوتی ہے وہاں روزگار کے اتنے ہی زیادہ مواقع ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں صنعتی پیداوار اب نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے ہماری معیشت پر بہت زیادہ دباؤ آتا ہے اور ہم زرمبادلہ کے عوض یہ اشیاء دیگر ممالک سے درآمد کرتے ہیں یا سمگل کرکے لاتے ہیں یوں ہماری افرادی قوت کوئی کام نہیں کرتی۔ پاکستان
کہنے کو ایک زرعی ملک ہے لیکن اس کی زرعی پیداوار اتنی بھی نہیں ہے کہ اس میں ہماری آبادی کا گزارا ہوسکے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں آبادی کی ایک اچھی خاصی تعداد زراعت سے وابستہ ہوتی ہے۔ہمارے ملک میں زراعت سے وابستہ لوگوں کو اتنی کم اجرت دی جاتی ہے کہ اس میں ان کا گزارا نہیں ہوتا اور نہ حکومت نے ان کو کوئی ایسی سہولت فراہم کی ہے جس کی بنیاد پر اس شعبہ میں ان کو سہولیات حاصل ہوں اور وہ اپنی محنت کا پھل وصول کرسکیں۔ اس کے بعد دنیا میں لوگ تجارت کے مختلف وسیلوں سے روزگار حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت روزگار کا سب سے بڑا یہی وسیلہ ہے مگر دنیا کی طرح تجارت کسی بھی صورت میں اس ملک میں منظم نہیں ہے اور ملک کی اپنی پیداواری صلاحیت بہت کم ہے اس لئے یہ شعبہ بھی مزید لوگوں کو روزگار دینے سے قاصر ہے۔ جس کے نتیجے میں لوگ مختلف حیلوں بہانوں سے بھیک مانگنے پر اتر آتے ہیں۔ پاکستان میں ایک تو براہ راست بھکاری ہیں جن کی تعداد بھی اب شمار سے باہر ہے جو براہ راست لوگوں کو روک کر یا ان کے دکانوں اور گھروں اور بازاروں میں پھیر کر بھیگ مانگتے ہیں۔ ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جو بلاواسطہ بھیک مانگتا ہے۔ ان لوگوں میں زیادہ تر لوگ مذہبی لبادے میں یہ کام کرتے ہیں۔ان لوگوں کی تعداد ہمارے معاشرے میں اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ ان کا شمار ممکن ہی نہیں ہے۔ بھیک مانگنے کاکاروبار پوش طبقہ بھی کرتا ہے اس مقصد کیلئے ان
لوگوں نے ٹرسٹ ، این جی اوز اور دیگر ذرائع کا استعمال شروع کیا ہے۔ بھیک مانگنے کا سلسلہ گاہے بگاہے حکومت بھی کرتی ہے اور ان پیسوں سے اشرافیہ کے شاہ خرچیاں پورے کرتی ہے۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا کاروبار بھیک مانگنا ہی ہے اب یہ کاروبار پاکستان سے باہر جاکر بھی لوگ کرتے ہیں اور اس کیلئے لاکھوں خرچ کرکے اربوں پیدا کرتے ہیں۔ یہ انڈسٹری جس تیزی کیساتھ ترقی کررہی ہے اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ آنیو الے چند برسوں میں سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں باقاعدہ بھیک مانگنے پر تربیت کا آغاز ہوجائیگا۔ جس ملک میں ستر فیصد سے زیادہ لوگ بے روزگار ہوں وہاں بھیک مانگنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہوتا۔ روزگار کی فراہمی کوئی مشکل کام نہیں ہے ہم سے زیادہ مخدوش حالات والے ممالک نے اپنے شہریوں کو روزگار کے مواقع فراہم کئے ہیں۔ ہماری اشرافیہ ہزاروں ارب روپے کی مراعات لیتی ہیں اگر ان میں سے نصف پیسے بھی روزگار کے مختلف ذرائع کیلئے وقف کئے جائیں تو پاکستان کی یہ ستر فیصد بے روزگار کوئی نہ کوئی کام کرنے پر لگ جائیں گے۔ صنعتی ترقی یا صنعتی روزگار کیلئے حکومتی پالیسی اتنی ناقص ہے کہ اس پالیسی کے ہوتے ہوئے کوئی بھی سرمایہ کار سرمایہ کاری نہیں کرسکتا۔ کوئی بھی صنعتی یونٹ لگانے کیلئے ہزار مختلف لوگوں اور اٹھارٹیز سے رشوت دیکر اجازت لینا اور پھر اس کے بعد جہاں بندہ صنعتی یونٹ لگانا چاہے وہاں بجلی ، پانی اور دیگر سہولیات کی عدم موجودگی میں کون پاگل ہوگا جو اپنے کروڑوں روپے لگائے پھر ملک میں امن وامان کی مسلسل خراب ہوتی صورتحال میں کون ایسا کریگا۔ اس کے علاوہ جو کھلے عام بھتہ خوری ہے اس کو کو کون کنٹرول کریگا۔اگر یہ سب کوئی بندہ کربھی لے تو اس ملک میں مروجہ سیاست کی وجہ سے ورکر کام نہیں کرتے اور کسی نہ کسی غنڈے یا سیاست دان کی آڑ لیکر صنعت کاروں کو بلیک میل کرنا یہاں ایک معمول ہے۔پھر اگر بجلی دستیاب بھی ہوجائے تو اس کی
قیمت اتنی زیادہ ہے کہ اس کو خریدنا کسی صنعت کار کے بس میں نہیں ہوتا۔ اور یہ بجلی مسلسل دستیاب بھی نہیں ہوتی۔ ان علاقوں میں جہاں صنعتیں ہیں وہاں جو بجلی دی جارہی ہے وہ آئی پی پیز سے لیکر دی جارہی ہے جو بناتے دس یونٹ ہیں قیمت سو کی وصول کرتے ہیں اور فی یونٹ ستر روپے کی دیتے ہیں لائن لاسز بھی وہ حکومت کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ یہ سب کسی اور کے نہیں ہیں ملک میں کسی نہ کسی صورت حکمرانی کرنیوالے طبقے کے بجلی کے کارخانے ہیں۔ دنیا کی ترقی کی ایک بڑی وجہ سمال انڈسٹریز بھی ہیں جن پر لاگت بہت کم آتی ہے اور اس سے خود روزگاری میں اضافہ ہوتا جاتا ہے وہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ہیں نہیں اور اس مقصد کیلئے بنکوں سے قرضے اتنے بلند شرح سود پر ملتے ہیں کہ کوئی اس کی ہمت ہی نہیں کرسکتا کہ وہ اتنی بلند شرح سود پر قرضے لے۔ اس وقت ملک میں کاروبار صرف پنجاب میں ہورہا ہے اور صنعتیں بھی صرف پنجاب اور کراچی میں ہی ہیں جبکہ باقی پاکستان اس سہولت سے محروم ہے یا اسے محروم رکھا جارہا ہے۔ اس وجہ سے پاکستان کے تین صوبوں میں روزگار کے مواقع ہے ہی نہیں ایسے میں لوگ کیا کریں گے وہ یا تو بھیک مانگیں گے یا پھر کسی شرپسند کے آلہ کار بنیں گے یا پھر سمگلنگ کریں گے۔ اور یہی سب کچھ ہوتا آرہا ہے۔ ملک میں امن تب قائم ہوگا جب لوگوں کو روزگار ملے گا لوگ عملی طور پر مصروف ہوں گے۔ لوگوں کو بھیک کی نہیں روزگار کی ضرورت ہے۔ جن علاقوں میں معدنیات ہیں وہاں مقامی آبادی کو اس سے منسلک کرکے بھی لوگوں کو روزگار دیا جاسکتا ہے مگر ایسا کرنے کیلئے عقل و شعور کی ضرورت ہے جو اس وقت کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ ہمارے قومی بجٹ کو اٹھا کردیکھیں اس میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسی پالیسی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر لوگوں کو روزگار دلایا جاسکتا ہے۔ چین اور ویتنام نے ترقی روزگار فراہم کرکے کی ہے۔یہ وہ دور ہے جس میں دنیا اپنی نوجوان نسل کو آئی ٹی سے وابستہ کرکے ان کو روزگار کے مواقع فراہم کررہی ہے۔اور ہم دنیا سے الگ تھلگ ہوکر انہیں بھیک مانگنے پر مجبور کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  کانگو وائرس: مینا /لالی پرند ہ کانگو سے بچائو کا سبب،مگر کیسے؟