الیکٹرانک میڈیا میں ”صداقت شعاری”

ایک معروف وی لاگرنے دو روز قبل اپنے ڈیجیٹل چینل میں یہ برملا کہا کہ تمام الیکٹرانک میڈیا پہ وہی کچھ کہا جا رہا ہے جس کی ہدایت ملتی ہے ، اب پی ٹی وی اور پرائیویٹ چینل کا ایک ہی رویہ ہے ، ایک ہی بیانیہ ہے اور اپنے اپنے ڈومین میں رہتے ہوئے اپنی مرضی کی تشریح ضرور کرتے ہیں مگر ریاست کے ساتھ تکرار کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ اْنہوں نے بہت سے صحافیوں کے نام گنوائے ، جنہیں مَیں نہیں جانتا کہ میری کبھی غیر متعلقہ میں دلچسپی نہیں رہی ، اور کہنے لگے کہ ان صحافیوں کو کون لے کر آیا جو مختلف چینل پہ بیٹھے ایک ” صداقت شعار میڈیا” بنا چکے ہیں۔ ان کے اس لفظ صداقت شعار میڈیا پہ مجھے نواب غازی خان ( جن کے نام پر ڈیرہ غازی خان آباد ہے )کے وزیر گانمن سچار یاد آگئے جو ان کے بھرے دربار میں کھری بات کہہ دیتے۔موصوف نے بھی اپنی برادری اور چینلز کے بارے سچی باتیں کیں کہ ان لوگوں کو کیوں ، کب اور کیسے پسند کیا جاتا ہے۔ مسخروں، غلاموں اور خوشامدیوں کے سلطان بننے کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے، اس حوالہ سے اب میڈیاکی مثال دی جاتی ہے۔۔ کسی نے گانمن سے پوچھا کہ نواب کس کو زیادہ پسند کرتے ہیں تو اس نے نواب غازی کی موجودگی میں کہہ دیا کہ ”نواب صاحب خوشامدیوں اور مسخروں کو زیادہ پسند کرتے ہیں ”۔ آج میڈیا میں سومنات لوٹنے والوں کا غلبہ ہے لیکن کوئی گانمن سچار پیدا نہیں ہو رہا اور سب اپنے کہے کو سچ کہہ رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ سننے والوں کی ایک اکثریت اپنے حق میں کہی ہوئی بات کو سچ سمجھ کر انہیں پسند کرتے ہیں اور ان کی باتوں کو حوالہ کے طور پہ پیش کیا جاتا ہے۔ ایک چینل پہ چند ملازم صحافیوں نے پاور سیکٹر کے مسائل کو غلط رنگ دے کر پیش کیا ، اتفاق سے ا ن میں ایک خود نما صحافی کسی محفل میں ملے اور مَیں نے اصلاح کرنے کو اس پروگرام کا حوالہ دیا۔ وہ ہنسنے لگے اور کہا کہ ہمیں کسی بھی شعبہ کی بجائے اپنے چینل کے خسارہ کی فکر زیادہ رہتی ہے۔ ایک زمانہ میں ہمیں خبریں اور تجزیے چھان پھٹک کر دستیاب ہوتے ، اخبارات اس بات کا خیال رکھتے کہ اخلاق سے گری ہوئی کوئی سٹوری شائع نہ ہونے پائے۔ ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن کا ہر پروگرام بہت نپا تْلا اور معیاری ہوتا۔ یہاں تک کہ مکالمہ میں تلفظ تک کا خاص خیال رکھا جاتا۔ گالم گلوچ تو دْور کی بات ہے ، سنسنی پھیلانے اور جھوٹ بولنے کا تصور ہی نہ کرتے۔ جنرل مشرف نے ذرائع ابلاغ میں غیرمعمولی دلچسپی لی اور اسی دور میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ جب چینلز کو وسعت دینے کا فیصلہ ہوا، تو وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے حکام نے ابلاغِ عامہ کے ماہرین سے ایک مشاورتی اجلاس میں اِس امر پہ تفصیل سے گفتگو کی کہ ٹی وی چینلز کا دائرہ کار کہاں تک ہونا چاہیے۔ جب ایک پروڈیوسر نے دکھائے جانیوالے پروگرام کی فہرست دیکھی تو اس میں کرنٹ افیرز پہ مکالمہ کو بہت زیادہ وقت دیا گیا تھا۔ اْنہوں نے مشورہ دیا کہ چینلز کو اس قدر کرنٹ افیرز کے پروگرام کرنے کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ ناظرین پہ منفی اثرات کے علاوہ حکومت کو اسے ریگولیٹ کرنے میں مشکل ہوگی اور یہ رائے قائم کرنے میں قوت حاصل کر لیں گے۔ اْن کی تجویز سے اتفاق نہ کیا گیا ، ہر قسم کے پروگرام پیش کرنے کی آزادی دی گئی اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک نئی سوچ پیدا ہوئی ، نئے سماجی پیمانے اختیار کیے گئے جس نے ایک اکثریت کو الگ سمت دکھائی ہے۔ دولت مند اور کاروباری شخصیات نے ٹی وی چینلز کو کاروبار بنا کر زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے اور مقتدر حلقوں سے رابطے بڑھانے شروع کر دئیے۔ ذرائع ابلاغ اس لحاظ سے ایک اہمیت رکھتے ہیں کہ یہ نوجوان نسل کی ذہن سازی اور عوام میں افکار ِ تازہ کو فروغ دیتے ہیں مگر ان سرمایہ داروں کے ہاتھوں ابلاغ کے ذرائع آنے سے اْنہوں نے ہر وہ حربہ استعمال کیا بلکہ یہ عمل جاری ہے کہ جس سے معاشرے میں سنسنی پھیلا کر چینل کی ریٹنگ میں اضافہ کیا جا سکے اور مال کھینچا جائے۔ ان چینلز پہ حالات ِ حاضرہ ، سیاست اور سیاسی شخصیات کے حوالے سے مکالمہ نے ذہنی وسعت کی بجائے نا ظرین میں ایک دوسرے سے نفرت پیدا کی ہے۔موصوف نے صحیح نشاندہی کی ہے کہ لوگ اب وہی چینل دیکھتے ہیں جہاں ان کی سوچ اور پسند کے مطابق باتیں کی جاتی ہیں۔ اسی طرح ان چینلز کو اچھا نہیں سمجھتے جو کسی کی سوچ اور پسندیدہ شخصیات کیخلاف ہیں۔ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ انہیںشخصیت پرستی کے مرض میں مبتلا کر کے چینلز اپنی ریٹنگ بھی بڑھا رہے ہیں اور معاشرتی بگاڑ کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ صحافت کا سب سے اہم فرض یہ ہے کہ آزادی اظہار کی عمارت کو استوار کئے رکھے ، اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کا یہ کام نہیں کسی کے عیب چھپائے یا غلطیوں پر پردہ ڈالے اور کسی کو یونہی بے نقاب کرے۔ یہ مشاہدہ رہا ہے کہ دروغ گوئی کو حکومت خود فروغ دیتی ہے ، پہلے سرکاری ٹی وی کی طرف انگلی اْٹھتی لیکن اب سرکار ی اور پرائیویٹ چینلز میں کوئی فرق نہیں۔ اب کوئی آزاد نہیں لیکن جس دن سچ کہنے کی مکمل آزادی ملی تو اْس دن سے پھر کسی کو حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی جرات نہیں ہو گی۔

مزید پڑھیں:  جھوٹوں کا اعتراف سچ