وطن عزیز میں اخبارات اور میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا کی یلغار کو کنٹرل کرنے کے لئے قانون سازی کا مرکزی نکتہ کوئی پوشیدہ امر نہیں جس سے قطع نظر سوشل میڈیا میں اباحیت او نوجوان نسل کو بے راہروی کا شکار بنانے اور بلا امتیاز مرد و عورت اور عمر کے وقت کے ضیاع کا جو سامان وافر اور باآسانی دستیاب ہے یہ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جس کی روک تھام قوانین پر عملدرآمد سے ہوتا ہے یا معاشرہ اور والدین اپنا کردار ادا کرتے ہیں اس میں تاخیر کا مزید وقت نہیں ہمارے تئیں سب سے پہلے والدین اپنے طرز عمل اور سکرین ٹائم کا خود ہی جائزہ لینے کے بعداپنی اصلاح آپ کرنے کے بعد بچوں پر توجہ دیں تو زیادہ مناسب ہو گا سکرین پر بچوں کا زیادہ گزارنا گھر گھر کی کہانی او معمول بن چکا ہے جس سے بچوں میں نفسیاتی عوارض چڑ چڑاپن کا شکار ہو جاتے ہیں علاوہ ازیں کے معاملات کا ذکر ہی نہ کیا جائے تو بہتر ہو گا بہرحال ہمارے نیوز رپورٹر کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فحش مواد کی بھرمار ہے جس تک نوجوان نسل کی رسائی کو روکنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور والدین چاہ کر بھی اپنے بچوں کو اس سے دور نہیں رکھ پا رہے جس کے نتیجے میں کم عمر بچے اور نوعمر لڑکے لڑکیاں فحش ویڈیوز دیکھنے اور شیئر کرنے لگے ہیں ماہرین نفسیات کے مطابق اس سے نہ صرف نوجوانوں کی ذہنی صحت متاثر ہو رہی ہے بلکہ جنسی جرائم اور گھریلو تشدد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر کوئی اسلحہ دکھانے یا کسی ادارے کے خلاف بات کرنے کی ویڈیو بنا لے تو پولیس فوری حرکت میں آ جاتی ہے لیکن فحش گفتگو یا جسم کی نمائش پر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے پی ٹی اے یعنی پاکستان ٹیلی کمیو نی کیشن اتھارٹی بھی اس معاملے میں غیر فعال نظر آتی ہے۔صورتحال کی مزید تشریح کی ضرورت نہیں سوائے اس کے کہ نوجوان نسل کو تباہی کا شکار ہونے سے بچانے کے لئے والدین معاشرہ اور حکومت سے جو ہو سکے اپنا اپنا کردارادا کریں اور نوجوان نسل کو تباہی سے بچایا جائے۔
