تیرے بدلنے کے باوجود صرف تجھ کو چاہا ہے

یہ معاشرہ جس طرف جارہا ہے اور جو ہمارے گھروں کا ماحول رہا ہے دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے اسے ہم اپنے بچوں خاص طور پر بچیوں کو سمجھانے میں ناکام رہتے ہیں ہمارے اپنے بچوں کے ساتھ اس طرح کا تبادلہ خیال ہی نہیں ہوتا کہ ہم اپنے بچوں کو سمجھیں اور وہ ہمارے خیالات اور ہماری زبانی معاشرتی اور خاندانی اقدار سے واقف ہو سکیں والدین اور اولاد کے درمیان یہ جو خلاء کی کیفیت طاری رہتی ہے اس سے دوریاں جنم لینے لگتی ہیں بچے والدین سے دور ہونے لگتے ہیں اور والدین بچوں کی شکایت کرتے ہیں کہ وہ ان کا خیال نہیں رکھتے بچے ہمارا خیال بعد میں رکھیں گے پہلے ہم ان کا خیال اس طرح سے رکھیں کہ صرف پہننے ‘ کھانے ‘ تعلیم اور تفریح ہی دینے کو بہت نہ جانیں بلکہ بچوں کے من میں کیا چل رہا ہے ان کی سوچ کیا ہے وہ کن مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں ان کی تکالیف کیا ہیں اور ان کو کس طرح سے اس سے نکالا جا سکتا ہے ضروری نہیں کہ سارے بچوں کی کیفیت اور مسائل ایک جیسے ہوں کچھ بچوں کو دیکھا جائے تو بظاہر خوش و خرم اور اچھی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں تعلیمی کارکردگی اور صحت کے مسائل بھی نہیں ہوتے ان کی سوسائٹی بھی اچھی ہوتی ہے مگر ان کی سوچ کیا ہے ان کے خیالات کیا ہیں وہ کس قسم کی زندگی جینے کے خواہاں ہیں وہ کیا چاہتے ہیں ان کو کیسا ہونا چاہئے یہ اور اس طرح کے وہ بہت سے سوالات اور حالات جن کا اکثر اوقات خود بچوں کو بھی علم نہیں ہوتا مگر وہ ایک عجیب قسم کی پریشانی اور ناخوشی کا شکار رہتے ہیں سب سے مشکل بات ہی یہ ہے کہ بچے کو خود سمجھ نہیں آتی کہ وہ ایک عجیب قسم کی اداسی کا شکار کیوں ہے بظاہر اس کی کوئی وجہ بھی نہیں یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس کا تقریباً آج کا ہر دوسرا بچہ شکار ہے بچے سب کچھ پاس ہو کر بھی ناخوش رہتے ہیں چونکہ ہم ان سے ایک پچھلے نسل کے والدین ہیں اس لئے ہمیں اس کا ادراک نہیں ہوپاتا شاید اس لئے بھی کہ جو کچھ آج کل کے بچوں کے پاس ہے ہمارے پاس نہیں تھا ہم جب ان کے پاس وہ سب کچھ دیکھتے ہیں جس کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوتا اور پھر ہم اپنے بچین اور ان کے بچپن کا موازانہ کرتے ہیں تو ہمیں ان کی ناخوشی کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی جبکہ بچے سب کچھ پاس ہو کر بھی والدین کی توجہ کے محتاج ہوتے ہیں جس میں کوتاہی اور غفلت کے باوجود والدین یہ نہیں سمجھ پاتے کہ ان کی جانب سے کوتاہی اور کمی کہاں پر ہے یوں والدین بچوں سے شاکی اور بچے والدین سے گلہ مندنظر آتے ہیں بچے تو بچے ہوتے ہیں والدین چلیں سارے نہیں بعض والدین ہی سہی خواہ مخواہ بچوں سے دوری کی شکایت کرتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہوتا یہ بس والدین کی فطری سوچ ہوتی ہے اور وہ فرط محبت میں بچوں سے اس درجے کی قدر و خدمت گزاری اور اطاعت مانگتے ہیں جو فطری ہونے کے باوجود موزوں نہیں ہوتا میں اپنے جوانسال بیٹے سے ایک مکالمہ کے چند
جملے بطور مثال لکھتی ہوں میں نے اچھے موڈ میں بیٹے سے گپ شپ کے دوران براہ راست نہیں برسبیل تذکرہ قسم کا گلہ کیا کہ آج کل کے بچے والدین کا خیال نہیں رکھتے ان کا جواب بڑا مدلل تھا انہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ماشاء اللہ آپ صحت مند ہیں آپ کو خدانخواستہ صحت کے مسائل اور علاج کی ضرورت نہیں معقول آمدنی ہے دل کھول کر بچوں پر خرچ کرتی ہیں ضرورت مندہرگز نہیں اور نہ ہی طمع رکھتی ہیں اور علاوہ بھی آپ کوکسی چیز کی ضرورت نہیں خود گاڑی چلا کر کہیں جانا ہو تو چلی جاتی ہیں اب آپ بتائیں میں آپ کی کیا خدمت کروں الٹا آپ ہی میرا خیال رکھتی ہیں تھوڑی دیر میں نے آنکھیں کھول کر بیٹے کے چہرے پر گاڑ دیں اور سوچنے لگی کہ انہوں نے کتنے پتے کی بات کی ہے مجھے خود اپنا سوال اور اپنے خیالات ہی بے جا لگے مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میرے بیٹے نے میری وہ دکھن ہی دور کردی جس کے باعث میں بلاوجہ اپنے بچوں سے دل ہی دل میں شکایت کے انبار لگائے بیٹھی ہوتی تھی بالکل اسی طرح کی کیفیت اور دل میں بچوں کی بھی شکایات ہوں گی جن کو اگر ان کو زبان پر لانے کا موقع دیا جائے اور ان کی سنی جائے تو ان کے دل کی کیفیت بھی بدل جائے گی اور ان کو سکون ہو گا کہ ان کو ان کے سوالات و خیالات کا جواب مل گیاایک بات مائوں کو اپنی بیٹیوں کوبطور خاص سمجھانے کی ضرورت ہے کہ کالج ‘ یونیورسٹی جائو یا کہیں اور لڑکوں کے
معاملے میں مشرقی نہیں مغربی انداز اپنائو یورپ کی لڑکی بن جائو کیونکہ مشرقی معاشرے میں عورت کا مرد سے مدد لینا ان کی طرف سے چائے کھانے کی بل کی ادائیگی اور دیگر چھوٹی موٹی چیزوں کو ثقافتی طور پر قبول کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور معمول کی بات ہے یہ حد میں رہے تو درست مگر کالج اور یونیورسٹی میں عموماً ابتداء اسی سے ہوتی ہے کہ کسی لڑکے کو فوٹو سٹیٹ کے لئے بھجوایا اور ان کی طرف سے کینٹین کے بل کی ادائیگی کو طوعاً و کرھاً سہی قبول کرلی اس طرح کے چھوٹے چھوٹے معاملات پھر کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں کے بعد والی صورتحال پیدا کرتی ہے جبکہ مغربی معاشرے میں ایسا بالکل نہیں وہاں لڑکی آپ سے کسی قسم کی مدد اور ادائیگی قبول نہیں کرتی ان کے کلچر میں کوئی لڑکی جب کسی لڑکے سے پھول قبول کرلیتی ہے اس کا بھیجا ہوا تحفہ رکھ لیتی ہے اور اس کے ساتھ کھانے پر چلی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ لڑکی اس لڑکے سے تعلق بنانے پر رضا مند ہے وہاں مائیں بطور خاص بچیوں کو بتاتی ہیں کہ جس کسی سے تعلق بنانے میں دلچسپی نہ ہو کبھی کسی سے مفت کے تحائف یا کوئی اور چیز قبول کرکے اس کا حوصلہ مت بڑھائو کسی سے کوئی چیز اور مدد نہ لے کر تحفہ ‘ سہولت یا رعایت قبول نہ کرکے اپنی مشکلات اور ذاتی وخاندانی حالات میں کسی کو شریک نہ کرکے علیحدہ سے رہ کر لڑکی اپنے کو لیگز کو واضح پیغام دے سکتی ہے کہ وہ چھیڑچھاڑ کے لئے دستیاب نہیں۔ مغربی معاشرے میں کیا ہوتا ہے اس کا آغاز سوچے سمجھے ہوتا ہے بنا سوچے تو ہمارے معاشرے میں شروعات ہوتی ہے اور بس۔

مزید پڑھیں:  ٹرمپ کا دورہ عرب دنیا