قومی شعور میں ادب کی اہمیت

کبھی کبھی دوستوں کی محفل میںہم ادب کے حوالے سے یہ بحث چھیڑ دیتے ہیں کہ ادب کا قومی شعور سے کیا تعلق ہے اور ادب لکھنے والے قومی زندگی کے فرائض کا احساس اور قومی زندگی کو با مقصد بنانے میںکس قدر جذبہ و ادراک رکھتے ہیں ۔ کیا ادب محض انفرادی عمل ہے یا سماجی عمل بھی ہے ؟ یہ بات تو طے ہے کہ ایک ادیب معاشرے کا ترجمان بلکہ حساس ترین نمائندہ ہے جو معاشرے کے ربط سے الگ نہیں رہ سکتا ۔
اطالوی شاعر اور ” ڈیوائن کامیڈی ” کے خالق دانتے کے بارے کہا گیا ہے کہ اگر اس کے ادب اور شاعری سے فلارنس کی سیاسیات کو نکال دیا جائے تو پھر وہ دانتے نہیں رہتا ، یہی صورتحال علامہ اقبال کی ہے ۔ یہ ادب ہی ہے کہ جسے پڑھ کر قاری میں تخیل کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ۔
آزادی کے بعد ہم مسلسل مسائل کا شکار رہے ہیں ، جمہوریت مستحکم نہ ہو سکی اور ابھی تک مُلک میں سیاسی عدم استحکام ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ادب میں قومی اقدار ، حمیت اور اخلاقیات کا احترام کس حد تک پایا جاتا ہے ۔ ایک ادیب سے قومی شعور کی توقع رکھنے اور اس کی امنگ دیکھنے سے پہلے ہمارے معاشرے کا با شعور ہونا بھی لازمی ہے ۔ معاشرہ تربیت چاہتا ہے اور بدقسمتی سے ہمارا تعلیمی نظام ہی اس قدر کمزور چلا آ رہا ہے کہ روشن خیالی اور آزاد شعور کی بیداری میں کبھی فعال نہیں رہا ۔اجتماعی طور پر ہماری ذہنی صلاحیتیں کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہیں اور نئی نسل میں شعوری اعتبار سے تناسب اور توازن کا فقدان ایک ایسا المیہ ہے کہ جس نے ہر سرگرمی کو یک طرفہ اور غلو پسندانہ بنا دیا ہے ۔ اگرچہ اس میں میڈیا کے ذریعے ذہنی خلفشار پیدا کرنے کا بڑا عمل دخل ہے ۔ ہمارے چند دوستوں کا کہناہے کہ اچھا ادب لکھا نہیں جا رہا ، لوگ مجبور ہیں کہ وہ اہل ادب کی بجائے روزانہ نا بلد مبصرین کو الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پہ سن رہے ہوتے ہیں تو ایسے میں کیا قومی شعور اور کیسی بیدار مغزی ؟ مَیں اس سے متفق نہیں ہوں ، افسوسناک امر یہ ہے کہ ادب پڑھا نہیں جا رہا ورنہ اچھی کتابیں تو اب بھی شائع ہو رہی ہیں ۔ روسی انقلاب کے بعد ایک بڑے عرصے تک دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان ایک سرد جنگ جاری رہی۔ روس اور امریکہ کے نمائندے اپنے اپنے نظام کے گن گایا کرتے تھے۔ ایک عالمی کانفرنس میں کسی نے سوویت ادیب اہرن برگ سے پوچھا کہ روسی انقلاب نے کوئی نیا ٹالسٹائی اور نیا چیخوف پیدا نہیں کیا ؟ اہرن برگ نے جواب دیا کہ ہاں، انقلاب کے بعد کوئی نیا ٹالسٹائی تو پیدا نہیں ہوا لیکن آپ یہ دیکھئے کہ پہلے اگر چند ہزار ٹالسٹائی کو پڑھتے تھے تو اب ٹالسٹائی کو پڑھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ یہ بڑی اہم بات ہے ، اب اگر یہاں بھی لاکھوں مرزا غالب اور اقبال کو پڑھنے لگیں تو کہا جا سکتا ہے کہ کئی نئے غالب پیدا ہو گئے ہیں ۔ یوں بھلا ذہنی طور پر بالغ اور پڑھے لکھے معاشرے میں نئے خیالات و سوچ کی افزائش کو کون روک سکے گا ۔ مانا کہ انٹر نیٹ کی دنیا وسیع ہو گئی مگر مطالعہ میں کمی کے خطرات سے ہمارے حکمرانوں کا آگاہ رہنا ضروری ہے ۔
امریکی سیاست دان نیوٹ گنگرج جب ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر منتخب ہوئے تو انہوں نے اپنی ری پبلکن پارٹی کے ارکان کو سات کتابوں کی ایک فہرست دی اور ہدایت کی کہ جب اجلاس میں شرکت کے لیے آئیں تو یہ تمام کتابیں پڑھ کر آئیں۔ ان سات کتابوں میں امریکہ کی تاریخ اور معاشرے کے علاوہ افسانوی ادب کے دو شاہکار بھی شامل تھے۔ اس میں ایک ناول ” گاڈ فادر ” کی باز گشت تو ہماری عدالتوں میں بھی سنی گئی ۔ اس تناظر میں اگر ہم اپنے سیاسی رہنماؤں اور خود ساختہ مبصرین کی ٹاک شوز میں باتیں سنیں تو ان کے مطالعے اور فکری استعداد کابخوبی اندازہ ہو جاتا ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات کا دارو مدار سیاسی گرم بازاری پر ہے سنسنی خیز خبروں کے بغیر یہ سب پھیکے معلوم ہوتے ہیں ۔ لیکن ادیب کا اپنی عصری زندگی کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے ، اگر سیاسی مسائل سامنے ہیں تو یہ مسائل بھی اس کے ادب میں جھلکتے ہیں ۔ انسانوں سے الگ سیاست کا کوئی وجود نہیں اور ادب کا تعلق انسانوں سے ہے ۔ اس لیے ادیب کا سروکار اتنا کسی سیاسی مقصد سے نہیں ہوتا جتنا اس صورتحال میں گرفتار لوگوں کی زندگی کے مسائل سے ہوتا ہے ۔ اعلیٰ ادب انسانی قدروں کا حامل ہوتا ہے اور قومی شعور کی بیداری کا وسیلہ بنتا ہے ۔ انسانی اور معاشرتی زندگی کے عناصر کی بھر پور ترجمانی کرنے اور قومی شعور سے وابستہ ادب کا مقام صحافت کی سطح سے کہیں بلند ہوتا ہے ۔
ادیب کا یہ فرض ہے کہ وہ انسان کو اس کی بنیادی انسانیت اور زندگی کی بنیادی حقیقت سے آگاہ کرے اور اسے بتائے، زندگی بے شمار امکانات سے عبارت ہے ۔ ادیب اپنے قلبی وسیلے سے اجتماعی دانش عطا کرتا ہے ، دانتے ، گوئٹے اور اقبال نے اپنی اپنی اقوام میں جو اجتماعی شعور پیدا کیا ، وہ فلسفی اور حکما پیدا نہیں کر سکے ۔ اسی سوچ سے خائف فاشسٹ مسولینی کا قول ہے کہ ” تشدد کی جتنی بھی مذمت کی جائے ، یہ بات واضح ہے کہ اپنے تصورات دوسروں کو سمجھانے کے لیے سرکش کھوپڑیوں پر گونج دار چوٹیں لگا نا ہوں گی ۔” یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ اپنے تخلیقی ہنر کی بندش پر احتجاج کرنے والوں نے مشکلات کا سامنا بھی کیا ۔

مزید پڑھیں:  جنگ بندی کے بعد روابط کی بحالی