آنکھ کھلتی ہے تو اخبار طلب کرتے ہیں

بدلائو تو ہر چیز میں آیا ہے جدت پسندی اور جدت طرازی سے زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہو رہا ہے اس لئے ”ایزی کم ایزی گو” کے فلسفے پر یقین رکھنے والے بڑے فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ جب 24/7 چلنے والے نیوز چینلز پر ہر لمحہ بدلتے ہوئے حالات کی خبریں نہایت سرعت کے ساتھ انسان تک آسانی سے پہنچ کر اگلے ہی چند منٹ میں مزید نئی خبریں آنے سے پرانی خبریں واقعی”پرانی” ہو جاتی ہیں یعنی تازہ خبریںاپنے ہی پہلی والی خبروں کو ”باسی” کر دیتی ہیں تو ایسی صورت میں بھلا پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات کی کیا وقعت رہ جاتی ہے ‘ بظاہر بات دل کو لگتی ہے اور لگنی بھی چاہئے لیکن وہ جو فارسی کا ایک مقولہ ہے کہ ”شنیدہ کے بود مانند دیدہ” یعنی سنی سنی بات دیکھے ہوئے حالات اور ثبوتوں کے مقابلے میں بھلا کیا اہمیت رکھتے ہیں اور ہم ہمیشہ پرنٹ میڈیا کے مقابلے میں الیکٹرانک میڈیا کی وکالت اس لئے کرتے ہیں کہ ”برقی میڈیا” کو انگریزی زبان میں Hear say یعنی کہی یاسنی سنائی بات کہہ کر عدالتوں میں بھی زیادہ اہمیت کے قابل نہیں سمجھا جاتا اور مقدمات میں ان کو بطور گواہی یا ثبوت اس وقت تک قبول نہیں کیا جاتا جب تک کہ ان کو دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ پیش نہ کیا جائے اور اب تو ہر واقعے ‘ بیان ‘ ویڈیو کو درست ثابت کرنے کے لئے اس کا فارنزک تجزیہ مہیا کرنا بھی ضروری ہو گیا ہے کیونکہ موجودہ دور میں کسی بھی ”دعوے” کو تب تک تسلیم نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اس کا فارنزک نہ کرایا جائے بصورت دیگر اسے ”فیک” قرار دے کر اس کی حقیقت پر سوال اٹھائے جاتے ہیں تاہم جہاں تک پرنٹ میڈیا کا تعلق ہے اس کی ویلیو (بعض استثنائی حالتوں کے علاوہ) پر اتنی آسانی سے سوال نہیں اٹھائے جا سکتے اور اخبارات کی اہمیت پر سوال اٹھانے والوں کی اس بات سے اگرچہ اختلاف ممکن نہیں کہ صبح جو اخبار قارئین کے ہاتھوں تک پہنچتا ہے اس میں شائع ہونے والی خبریں باسی ہو چکی ہوتی ہیں اور حالات حاضرہ بھی حالات حاضرہ نہیں رہتے بلکہ حالات آگے بڑھ چکے ہوتے ہیں یعنی بقول دلاور فگار
حالات حاضرہ نہیں گو مستقل ‘ مگر
حالات حاضرہ کو کئی سال ہو گئے
تاہم اخبار آج بھی معاشرتی زندگی کا ایک اہم جزو ہے اور اخبار پڑھنے کے عادی افراد جب تک صبح صبح اخبار پر نظر نہ ڈالیں ان کا دن آسانی سے نہیں گزرتا جبکہ انہیں یہ اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کا ”فالو اپ” تفصیلات میں یا تو مزید اضافہ کرتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کی مدد سے آگے بڑھ چکا ہوتا ہے یا سوشل میڈیا پر بھی ایک طوفان بن کر”بریکنگ نیوز” کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہوتا ہے مستزاد اس پر وی لاگرز کے تبصرے ‘ اور درجنوں چیلنز پر ٹاک شوز کا ”طوفان بدتمیزی” الگ سے خبروں ‘ تجزیوں کے دوران بعض اوقات ان شوز میں شریک مخالف سیاسی رہنمائوں ‘ ورکروں کی ایک دوسرے کو ”نیچا” دکھانے کے دوران ایک دوسرے پر الزامات کے ہنگام بعض اوقات صورتحال کے قابو سے باہر ہو جانے کی وجہ سے معاملات مرزا غالب کے اس شعر کی مانند ہو جاتے ہیں کہ
دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن
ان ساری باتوں کے اعادے سے ہمارا مقصد پرنٹ میڈیا کی اہمیت اور ضرورت کو اجاگر کرنا ہے جس کی گواہی وہی انگریزی مقولے کے مطابق ”فرام دی ہارسز مائوتھ” بھی آگئی ہے اور وہ یہ کہ ایک دودو نابغہ روزگار ہستیوں نے کہہ دیا ہے کہ پرنٹ میڈیا کی اہمیت کم نہیں ہوئی جی ہاں اخباری صنعت کی ایک بہت بڑی تنظیم سی پی این ای یعنی کونسل آف پاکستان نیوز پییپرز ایڈیٹرز کے سالانہ انتخابات میں بعض اہم عہدوں پر پشاور کے اخبار مالکان یا ان کے نمائندگان کی کامیابی کے موقع پر مبارک باد اور تہنیت کا پیغام دیتے ہوئے گورنر فیصل کریم کنڈی اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے اپنے اپنے بیان میں پرنٹ میڈیا کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ ”سی پی این ای اخباری صنعت کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرے گی اور نومنتخب کابینہ اخباری صنعت سے وابستہ کارکنا ن کی توقعات پر پورا اترنے کی کوششیں کرے گی”ان دو بڑی شخصیات کے بیانات کے مندرجات اپنی جگہ تاہم ان بیانات کے ”عطر” کے طور پر ہم اپنے مطلب کے الفاظ پر تبصرے تک ہی خود کو محدود رکھنا چاہیں گے جو ہمارے نزدیک پتھر کی لکیر قرار دینے میں کوئی امر مانع نہیں ہم ہمیشہ سے اس بات کے قائل رہے ہیں کہ اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں ‘ میڈیا کے اس تیز ترین دور میں بے شک ”باسی خبریں” بن کر سامنے آتی ہوں ‘ لیکن ا خبارات کی اہمیت صرف خبروں سے نہیں اس میں شائع ہونے والے تبصروں ‘ تجزیوں اور خاص طور پر ادارتی صفحات کی تحریروں جن میں اداریہ ‘ شذرات اور کالم شامل ہوتے ہیں سے عبارت ہے سنجیدہ قاری خبروں پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالنے کے بعد ادارتی صفحات پر نظریں گاڑ کر سیاسی ‘ سماجی اور اقتصادی حالات کے تجزیوں کے ساتھ ساتھ کالم نگاروں کی تحریروں کو دلچسپی سے پڑھتے ہیں اور ان سے خط اٹھاتے ہیں ہر اخبار کا قاری اپنے پسندیدہ کالم نگار کے کالم کو سب سے پہلے پڑھتا ہے اس کے بعد دیگر کالم نگاروں سے رجوع کرتا ہے ‘ اور کالم پڑھنے کا یہ معاملہ ایک نشے کی سی کیفیت لئے ہوئے قاری کو اپنی جانب کھینچتا ہے ‘ پہلے تو ہر قاری صرف اپنی دسترس میں آنے والے اخبار کے کالم نگاروں اور سیاسی تجزیہ کاروں کی تحریروں تک محدود تھا مگر اب الیکٹرانک میڈیا نے صرف ایک کلک کے ذریعے دنیا بھر کے اخبارات کے مشہور کالم نگاروں تک اس کی رسائی ممکن بنا دی ہے اور نہ صرف فیس بک ‘ یو ٹیوب وغیرہ پر مختلف اخبارات قاری کی دسترس میں آچکے ہیں بلکہ وہ ان سے وابستہ مشہور لکھنے والوں کی تحریروں سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں اور ان تحریروں سے دنیا کے حالات کے تغیر و تبدل کے بارے میں باریک سے باریک نکتے اس کی سمجھ اور فہم میں آجاتے ہیں اخبارات کے یہ مضامین ‘ اداریئے ‘ شذرات ‘ تجزیئے ‘ کالم تحریری صورت میں ایک محفوظ دستاویز کی صورت محفوظ ہو جاتے ہیں اور اب تو ہمارے ہاں بھی کئی ایک کالم نگاروں کے کالم کتابی صورت میں بھی دستیاب ہیں جو نہ صرف قارئین کے لئے دلچسپی کا سامنا لئے ہوتے ہیں بلکہ مختلف یونیورسٹیوں میں تحقیق سے وابستہ طلباء اور طالبات ان کتابوں سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے اپنے تحقیقی مقالے تحریر کرنے میں بھی آسانیاں محسوس کرتے ہیں اس لئے گنتی کے چند لوگ اگر برقی میڈیا کے چکا چوند اور تیز رفتاری سے متاثر ہو کر یہ سوچتے ہیں کہ اخبار میں کیا رکھا ہے؟تو ہم ان کے لئے اخبارات کے ادارتی صفحات کا حوالہ دے کر ان کی اس غلط فہمی کو دور کر سکتے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جاے کہ آج قاری اخبار کا مطالعہ صرف ایڈیٹوریل پیج کی وجہ سے کرتا ہے تو کوئی غلط نہیں ہو گا اخبار کی اہمیت شہزاد احمد کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے کہ
دس بجے رات کو سو جاتے ہیں خبریں سن کر
آنکھ کھلتی ہے تو اخبار طلب کرتے ہیں

مزید پڑھیں:  چینی کی ذخیرہ اندوزی