مسئلہ کشمیر کا احیائ

گزشتہ ہفتے مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ہونے والے حملے کو بھارت کی سیکیورٹی فورسز نے فوری طور پر ”دہشت گرد حملہ” قرار دیا۔ بھارتی میڈیا نے حسبِ روایت بغیر کسی تحقیق کے ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی، اور عالمی سطح پر بھارت نے خود کو مظلوم بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی۔ مگر کئی اہم سوالات اور شواہد اس واقعے کو ایک ممکنہ فالس فلیگ آپریشن ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔سب سے پہلا سوال یہی ہے کہ ایک ایسا علاقہ جو ہائی سیکیورٹی زون ہے، جہاں ہر آنے جانے والے کا اندراج کیا جاتا ہے، وہاں اس نوعیت کا حملہ کس طرح ممکن ہوا؟ پہلگام میں ہر سیاح کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے، اور یاترا کے دوران حفاظتی اقدامات اپنے عروج پر ہوتے ہیں۔ ایسے میں حملہ آوروں کا بغیر کسی رکاوٹ کے وہاں پہنچ جانا نہ صرف سیکیورٹی کی ناکامی ہے بلکہ اس واقعے کے پیچھے منصوبہ بندی کا عندیہ بھی دیتا ہے۔تاریخی طور پر بھارت کی خفیہ ایجنسیاں اور ریاستی ادارے فالس فلیگ آپریشنز کے ذریعے اپنے سیاسی یا عسکری مقاصد حاصل کرتے رہے ہیں۔ چاہے وہ 2001 کی بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہو یا2016 کا اڑی واقعہ، ہر واقعے کے بعد بھارت نے بغیر کسی تحقیق کے پاکستان پر الزام دھر کر عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ بعد ازاں متعدد رپورٹس نے ان واقعات کے اندرونی روابط اور مشکوک پہلووں کو بے نقاب کیا۔اور اگر دیکھا جائے تو پہلگام واقعے کا وقت بھی خاصا معنی خیز ہے۔ اس وقت مودی حکومت کو قومی سلامتی کا بیانیہ زندہ رکھنے کے لیے کسی ”بیرونی خطرے” کی اشد ضرورت تھی۔ ماضی میں بھی انتخابات سے قبل اس نوعیت کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جن کے ذریعے ووٹروں کی توجہ معیشت، مہنگائی اور اقلیتوں پر ظلم سے ہٹا کر ایک مشترکہ دشمن کی طرف منتقل کی جاتی ہے ۔ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ حملے کے فوری بعد مقبوضہ وادی میں کشمیری نوجوانوں کے خلاف سرچ آپریشنز شروع کر دیے گئے، جن کے دوران متعدد افراد کو بلا ثبوت گرفتار کیا گیا۔ اگر یہ حملہ واقعی بیرونی عناصر کی کارروائی تھی تو مقامی کشمیریوں کو نشانہ کیوں بنایا گیا؟ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس واقعے کو کشمیری عوام کو مزید دبانے اور آزادی کی تحریک کو دہشت گردی سے جوڑنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور جس طرح اس واقعے کو گودی میڈیا اورRAW سے منسلک سوشل میڈیا اکاونٹس نے محض10 منٹ میں اچھالا، اور واقعے کی تفصیلات سامنے آنے سے پہلے ہی ذمہ داری
پاکستان پر ڈال دی، وہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ یہ ردعمل کسی اچانک حملے پر مبنی نہیں تھا بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ تھا، جس کا اعتراف بھارتی جنرل ایم وی سوشندرا کمار بھی کر چکے ہیں کہ یہ واقعہ را کی کارستانی تھی۔مزید برآں، بھارت نے اس حملے کو اقوام متحدہ اور عالمی فورمز پر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس واقعے کا مقصد صرف داخلی سیاست نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنا بھی تھا۔تاہم، اس بار بین الاقوامی ردعمل نے صورتحال کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ امریکہ نے بھارت اور پاکستان دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ عسکری راستہ اختیار کرنے کے بجائے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کو حل کریں۔ امریکی وزارتِ خارجہ کی ترجمان کے مطابق، امریکہ دونوں ممالک کے ساتھ رابطے میں ہے اور خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کرنے کی ترغیب دے رہا ہے۔ یہ پیش رفت اس بات کا اشارہ ہے کہ مسئلہ کشمیر اب محض ایک دوطرفہ تنازع نہیں رہا، بلکہ ایک بین الاقوامی مسئلہ بنتا جا رہا ہے جس پر
عالمی طاقتوں کی نظر ہے۔امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک جیسے چین، ترکی، آذربائجان، بوسنیا اور دیگر ممالک نے بھی بھارت کے خلاف پاکستان کے بیانیے کی مکمل حمایت کی ہے۔ ان ممالک کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ عالمی برادری اب جنوبی ایشیا میں بھارت کی جانب سے کسی بھی قسم کی کشیدگی کو برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس سفارتی لمحے کو استعمال کرے اور بھارت کے ان فالس فلیگ آپریشنز کو عالمی سطح پر بے نقاب کرے۔ ایک شفاف اور غیر جانب دار بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ وقت کی ضرورت ہے تاکہ سچ سامنے آ سکے۔حقیقت تو یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاست خود ایک جبر و استبداد کی علامت بن چکی ہے۔ وہاں کے عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے ظلم، پابندیوں، اور انسانی حقوق کی پامالی کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایسے میں اگر کشمیری اپنی آواز بلند کریں تو اسے فوراً ”دہشت گردی” قرار دیا جاتا ہے، جبکہ ریاستی مظالم کو ”قانون نافذ کرنے” کا عمل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ پہلگام حملہ صرف ایک دہشتگرد کارروائی نہیں بلکہ بھارتی فوج اور انٹلیجنس ایجنسیوں کی منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے۔ تاہم، یہی واقعہ عالمی توجہ کا مرکز بن کر مسئلہ کشمیر کو ایک نئے سفارتی دائرے میں داخل کر چکا ہے۔ عالمی قوتیں اب میدان میں ہیں، اور اگر پاکستان سفارتی حکمتِ عملی سے کام لے تو یہ موقع مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کی طرف ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  شہزادوں کو شک کا فائدہ ملنا چاہئے