قومی کمیشن برائے انسانی حقوق خیبر پختونخوا کی جانب سے اختیارات سے تجاوز اور ریڑھی بانوں کیساتھ آئے روز حکام کی جانب سے بدتمیزی اور تضحیک سے پیش آنے کا نوٹس لینا خوش آئند ہے امر واقع یہ ہے کہ ایک جانب جہاں متعلقہ حکام اور ان کے ماتحت عملے کی جانب سے ریڑھی بانوں سے باقاعدہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے اور عالم یہ کہ ایک دو دن اگر بھتے کی ادائیگی میں کسی طرح تاخیر ہو جائے تو ریڑھی بان کو ہراسان کیا جاتا ہے اور اس کا سامان اٹھا لیا جاتا ہے یہ الگ بحث ہے کہ کیا سڑکوں پر تجاوزات قائم کر کے روزگار اور کاروبار قانونی عمل ہے یقینا ازروئے قانون اس کی کوئی گنجائش نہیں لیکن جہاں قانون پر عمل درآمد کی ذمہ داری پر نظر دوڑائی جائے تو ان عناصر کو تشدد اورتضحیک کا نشانہ بنانیوالے حکام ہی کٹہرے میں کھڑے نظر آتے ہیں یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ ہر ٹھیلے والے سے روزانہ ہفتہ وار یا پھر منتھلی بھتہ کی وصولی ہوتی ہے اس کیساتھ ساتھ ان افراد کو ائے روز ہراسان کر کے یہ ظاہر بھی کیا جاتا ہے کہ متعلقہ عملہ کی کوئی ملی بھگت نہیں اگر واقعی میں ایسا ہی ہوتا تو سڑکوں پر ایک بھی ٹھیلے والا نظر نہ آتا اور نہ ہی تجاوزات قائم ہوتیں۔ اگر تجاوزات قائم کرنے کی سرپرستی کے الزام کو واپس بھی لیا جائے تو کیا کسی نادار محنت کش کی توہین اور تضحیک کی قانون میں گنجائش ہے اس پر سرعام تشدد روا ہے اس کا سامان لوٹ کر افسران کے گھر پہچانا روا ہے۔شرف ادمیت بھی کوئی چیز ہے کہ نہیں اس طرح کے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں جن کی روک تھام کیلئے ہر فورم پر آواز اٹھانی چاہیے ان کیخلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے سول سوسائٹی کو بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے میں لیت العال کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے قانون پر قانون کے مطابق عمل درامد یقینی بنانے کی ذمہ داری سنجیدگی اور ٹھوس بنیادوں پر نبھائی جائے تو سڑکوں پر تجاوزات قائم کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔
