بچر آف گجرات کا جنگی جنون

بالآخر بھارت کی مودی سرکار نے بھارتی روایات کے عین مطابق رات کی تاریکی میں بہاولپور اور مرید کے کے علاوہ آزاد کشمیر میں متعدد مقامات پر میزائل حملے کئے بتایا جارہا ہے کہ پاکستان نے جواباً بھارت کی 8 فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایااور میزائلوں سے بھارت کے 5 جنگی طیارے تباہ کردیئے۔ بھارت کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اس نے پاکستان اور پاکستانی کشمیر میں دہشت گردوں کے کیمپوں پر حملہ کر کے انہیں تباہ کیا جبکہ یہ حملے زیادہ تر مدارس و مساجد اور ملحقہ مکانات پر کئے گئے ان حملوں میں ابتدائی طور پر 10 شہریوں کے جاں بحق اور تین درجن سے زائد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ بہاولپور کے قریب بھارت نے کالعدم جیش محمد کے بانی مسعود اظہر کے مدرسے ملحقہ مسجد اور مکانات کو نشانہ بنایا اس حملے میں ہونیوالے جانی نقصان کے حوالے سے مسعود اظہر کے پیغام میں اپنے خاندان کے متعدد افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی گئی۔ جاں بحق ہونیوالوں میں زیادہ تعداد معصوم بچوں کی ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت کی مسلط کردہ جنگ کا بھرپور جواب دیا جارہا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ قوم کا مورال بلند ہے بری فوج کے ترجمان کاکہناہے کہ فیصلہ کن جواب دیا جائیگا۔ آزاد کشمیر سے موصول ہونیوالی اطلاعات کے مطابق بھارتی میزائلوں اور گولہ باری سے نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے کوبھی کچھ نقصان پہنچا ہے۔ سرکاری ذرائع ابھی اس حوالے سے”ہلکی پھلکی”تصدیق کررہے مگرمظفر آباد اور نیلم کے شہری اور صحافتی حلقے اپنی اطلاعات کے درست ہونے پر مصر ہیں یہ خبر درست ہے تو خاصی تشویشناک ہے۔ بھارت نے شہری مقامات مدارس و مساجد اور ملحقہ مکانات کو ٹارگٹ قرار دیا گو پاکستان کی جوابی کارروائی فوجی ٹھکانوں تک محدود رہی ہے لیکن بادی النظرمیں یہی لگتا ہے کہ بھارتی جارحیت جاری رہی تو پاکستان بھی مؤثر جوابی کارروائی کا حق استعمال کریگا۔ امریکی صدر اور وزارت خارجہ نے بھارتی میزائل حملوں کو غلط قرار دیتے ہوئے تحمل کے مظاہرے کی درخواست کی ہے۔ پاکستان کس حد اور کب تک صبروتحمل کا مظاہرہ کریگا فوری طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں جارح پڑوسی ملک کو اگر بین الاقوامی قوانین شہری آبادیوں کے حوالے سے مسلمہ اصولوں اور دیگر معاملات کا پاس نہ ہو تو بہت مشکل ہوگا کہ پاکستان حساب برابر کرنے کیلئے قدم نہ اٹھائے۔ اس امر پر دوآراء نہیں کہ جنگ تباہی و بربادی کے سوا اپنے پیچھے کچھ نہیں چھوڑتی لیکن یہ بھی ممکن نہیں کہ ایک فریق کی ننگی جارحیت کے جواب میں دوسرافریق صرف امن کے نغمے گاتا رہے۔ بھارت اور پاکستان میں ایک دوسرے کیلئے عدم برداشت روز اول سے ہی موجود ہے۔ حالیہ جنگی جنون کی شروعات بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقہ پہلگام میں پیش آنیوالے افسوسناک واقعہ سے ہوئی اس واقعہ کے حوالے سے خود بھارت کے اندر اس مؤقف کا اظہار کیا جارہا ہے کہ یہ مودی حکومت کا سوچا سمجھا ڈرامہ ہے۔ پہلگام واقعہ کو مودی حکومت کا ڈرامہ قرار دینے والے بہار سمیت متعدد ریاستوں کے انتخابات، مسلم وقف املاک کیلئے بنائے گئے حالیہ قوانین، مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کیلئے آزمائے جانیوالے ہتھکنڈوں سمیت چند مزید مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ مودی حکومت اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے کسی حد تک بھی جاسکتی ہے۔ بظاہر اس مؤقف کی تصدیق پہلگام واقعہ کے بعد ہندو توا کے جنونیوں کی بھارتی مسلمانوں کیخلاف نفرت آمیز مہم اور بھارت میں مقیم و زیرتعلیم کشمیری باشندوں اور طالب علموں سے روا رکھے جانیوالے متشددانہ طرزعمل سے ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت میں ریاستوں کے مرحلہ وار انتخابات ہوں یا مرکزی اسمبلی کے انتخابات ہر دو مواقع پر بی جے پی آر ایس ایس اور شیوسینا کے انتہا پسند پاکستان اور مسلم دشمنی کو ہوا دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھتے۔ بھارت میں کم ہی سہی لیکن کچھ لوگ تواتر کے ساتھ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ آخر ریاستی یا مرکزی انتخابات کے وقت ہی پہلگام جیسا سانحہ کیوں رونما ہوتا ہے؟ یہ سوال خصوصی اہمیت کا حامل ہے پہلگام واقعہ کے بعد صرف 10 منٹ کے اندر مقدمہ کا اندراج اور ابتدائی تحقیقات کے بغیر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرادینا حیران کن تو ہے مگر اس سے مودی کے ہندو توا کو سمجھنے کی خاصی مدد ملتی ہے۔ یہاں یہ امر غور طلب ہے کہ امریکی ذرائع کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کو پہلگام واقعہ بارے دس دن قبل معلوم تھا۔ ایسا ہے تو مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیوں کیا گیا نیز یہ کہ وقوعہ والی جگہ اور گردونواح سے سکیورٹی فورسز کو دو دن قبل کیوں ہٹالیا گیا؟ ہماری دانست میں ان 2 سوالوں کے جواب میں پوری کہانی موجود ہے مگر سوالات کا جواب کون دیگا یہ بذات خود سوال ہے۔ گزشتہ شب کی بھارتی جارحیت اور پاکستان کی جوابی مؤثر کارروائی کے نتائج علاقائی اور عالمی ذرائع ابلاغ کے توسط سے سب کے سامنے ہیں
۔ بھارت جن اہداف کو دہشتگردوں کے کیمپ قرار دے رہا ہے وہ اہداف بنیادی طور پر مساجد ملحقہ مکانات ہیں یا ایک دو مدارس جو کچھ عرصہ سے بعض مسائل کی وجہ سے بند پڑے تھے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے سویلین مقامات کو نشانہ بنایا جو بذات خود افسوسناک ہے لیکن اپنے ملک میں مخالفین کو زندہ جلانے کی مہم کی سرپرستی کرنیوالے ”بچر آف گجرات” نریندر مودی سے انسانیت امن اور قوانین کی پاسداری کی توقع عبث ہے۔ بچر آف گجرات کی ”بہادری” کے قصے گجرات کے درودیوار پر آج بھی ثبت ہیں۔ بھارتی جارحیت کے جواب میں کی جانیوالی پاکستانی کارروائیوں کے حق سے اصولی طور پر انکار یا اختلاف ممکن نہیں۔ بھارتی جارحیت اور پاکستان کی جوابی کارروائی سے پیدا ہوئے جنگی ماحول میں صبروتحمل اور دانشمندی کے مظاہرے کی ضرورت ہے۔ افواہوں کو پَر لگانے سے ہرممکن گریز کیا جانا چاہیے البتہ اس صورتحال میں ماضی کی ففتھ جنریشن وار کے مجاہدین کا سوقیانہ پن اور بھارتی جارحیت سے دس بارہ گھنٹے قبل سابق وزیراعظم عمران خان کا اپنی جماعت کو حکومت سے کسی قسم کا تعاون نہ کرنے اور کسی اجلاس میں شریک نہ ہونے کی ہدایت قابل غور ہے۔ ذرائع ابلاغ میں عمران خان کی یہ ہدایت ان کی ہمشیرہ کے توسط سے شائع اور نشر ہوئی۔ ففتھ جنریشن وار کے بھگوڑے یوٹیوبرز کے ویڈیو بیانات اور سوشل میڈیا پر ان کی پوسٹیں یہ سمجھانے کیلئے کافی ہیں کہ ان کی ”لگامیں” کس کے ہاتھ میں ہیں۔ ان حالات میں ہر خاص و عام کو یہ امر بطور خاص مدنظر رکھنا ہوگا کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے پالیسیوں اور دوسرے معاملات پر اختلافات پاکستانیوں کا داخلی معاملہ ہے موجودہ حالات میں ایسی کوئی بات نہیں کہنی چاہیے جس سے دشمن فائدہ اٹھاسکے۔ جہاں تک بری فوج کے ترجمان کے اس بیان کا تعلق ہے کہ فیصلہ کن جواب دیا جائیگا تو یہ زمینی حقائق اور ملکی سالمیت کی روشنی میں درست ہے۔

مزید پڑھیں:  فتح مبین