ہمارے ملک میں ہڑتال کوئی نئی بات نہیں ہے، آئے روز جب جس کا دل چاہتا ہے ہڑتال کی آواز دے دیتا ہے، جو بھی اقتدار سے باہر ہوتا ہے اس کو حکومت کی کوئی بات بھی اچھی نہیں لگتی اور اقتدار میں آنے کیلئے ہڑتالیں کرواتا رہتا ہے، سیاست دانوں کی ان ہڑتالوں کا مقصد اگر ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح ہوتی تو آج ہماری حالت یہ نہ ہوتی، سیاست کیساتھ ساتھ ہمارے ہاں مذہبی بنیادوں پر بھی ہڑتالیں کروانے کا رواج عام ہے، اس کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی کچھ ہو رہا ہوں اس کو ٹھیک کرنا بھی ہم اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور اس خاطر بھی جلوس، جلسے اور ہڑتال ہمارے ہاں معمول کی بات ہے، اول تو اپنا گھر ہم سے ٹھیک نہیں ہوتا اور دوم یہ کہ جلسے، جلوس اور ہڑتال کرکے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بری الذمہ ہو گئے ہیں، ان جلسوں اور ہڑتالوں کی وجہ سے ایک جانب تو کاروبار متاثر ہوتے ہیں اور دوسری جانب زندگی کے دیگر معاملات پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، بالخصوص تعلیمی ادارے ہڑتال کی وجہ سے بند رہتے ہیں اور بچوں کی تعلیم کا حرج ہوتا ہے، اس کے علاوہ اکثر یہ ہڑتالیں پر تشدد ہو جاتی ہیں کہ کچھ لوگ زبردستی کاروبار بند کروانے کی کوشش کرتے ہیں، روزانہ کے حساب سے کمانے والے ہی جانتے ہیں کہ اگر وہ ایک دیہاڑی نہ لگائیں تو کے گھر کا سارا نظام متاثر ہوتا ہے، اس کے علاوہ مختلف جماعتوں کے حمایتی بھی آپس میں گتھم گتھا نظر آتے ہیں، ہڑتال کا ایک ایک دن قرضے میں سر سے پاؤں تک ڈوبی معیشت کو مزید نقصان پہنچاتا ہے، اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ ان جلسے، جلوسوں اور ہڑتالوں سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور خاص کر جب ہڑتال ایک یا دو دن کیلئے ہو، حکومتی معاملات اسی طرح چلتے رہتے ہیں اور عوام کی تکلیف سے ان کا کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے، یہاں یہ سوال بہت اہم ہے اور میری ناقص رائے میں اس جانب ہماری توجہ بھی نہیں ہے کہ آخر ان ہڑتالوں کی کوئی افادیت ہے بھی یا نہیں اور اگر ہے تو کس قدر ہے، کیونکہ ایک عام آدمی اس بارے میں بالکل بھی نہیں سوچتا وہ صرف اور صرف اپنے مذہبی یا سیاسی راہنماء کی آواز پر لبیک کہتا ہے، اگر ان ہڑتالوں کا کوئی حاصل وصول ہے تو یہ وقتی نقصان کوئی معنٰی نہیں رکھتے ہیں، یہ جلسے، جلوس اور ہڑتالیں کرنیوالی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے نعروں کو دیکھا جائے تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب جماعتیں عوام کے مسائل سے بخوبی واقف ہیں اور اپنے نعروں میں انہی کا بارہا اعلان کرتی ہیں، سوال یہ ہے کہ یہ جماعتیں حکومت میں ہوں یا حزب اختلاف میں عوام کے مسائل حل کیوں نہیں ہو رہے ہیں، اسی سے اندازہ لگا لیں کہ دراصل ان نعروں اور ہڑتالوں کا اصل مقصد صرف عوامی حمایت حاصل کرنا ہوتا ہے اور ان جماعتوں کو عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا اور ایسا ہی کچھ معاملہ فلسطین کے بارے میں کی جانیوالی ہڑتالوں کا ہے، اگر آپ فلسطین کے بارے میں میرے پچھلے کالم کو اس کالم کیساتھ ملا کر پڑھیں گے تو میرا مقدمہ بہتر انداز میں سمجھ سکیں گے، جب مقاصد کا تعین نہیں ہو گا اور نیکی صرف اپنی ذاتی تسکین کیلئے ہو گی تو اس سے فائدہ تو درکنار، نقصان ضرور ہو گا، مجھے بتائیں کہ ایک دن ملک بند کرنے سے فلسطین کے نہتے اور بے بس مسلمانوں کا کیا فائدہ ہوا ہے، کیا امت مسلمہ، مغرب یا اسرائیل کو اس سے کسی بھی قسم کا فرق پڑا ہے، اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ ہڑتال واقعی مؤثر تھی تو کم از کم ہفتے میں ایک دن اس ہڑتال کیلئے مختص کر دینا لازمی ہے، اگر ہم واقعی ان ہڑتالوں سے فسلطین کے مظلوم عوام کی مدد کر رہے ہیں تو جتنا بھی نقصان ہو وہ فائدہ ہی ہے، چند جوشیلی تقاریر کرنے سے آپ نے کیا حاصل کیا ہے، وضاحت کیساتھ عوام کے سامنے رکھیں تاکہ اگلی ہڑتال زیادہ مؤثر ہو سکے، اور سیاسی جلسے جلوسوں کو اہم دینی معاملات پر قیاس کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے، کہ سیاسی جماعتیں بھی تو ہڑتالیں اور دھرنے دیتی ہیں، ہم نے ہڑتال کر کی تو کون سی قیامت آگئی ہے، قیامت ہی تو آئی ہے لیکن فلسطین کے لاچار لوگوں پر، ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم فلسطین کی آزادی کیساتھ کتنے مخلص ہیں، خود ہی اندازہ لگا لیں، ہڑتال کی آواز دینے سے پہلے لوگوں کی ذہن سازی تو کر لیں، یہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ فلسطین پر ہماری قومی فکر اور اتحاد کا مظہر ہے، اور یہ بھی جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پائی جانیوالی حالیہ کشیدگی میں فلسطین نے بھارت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے، فلسطینی صدرمحمود عباس نے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کو خط میں ہندوستان کی حمایت کا اعادہ کیا ہے، محمود عباس نے ہندوستان کیلئے اس یقین کا اعادہ بھی کیا ہے کہ امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی بھارتی کوششوں میں فلسطین حکومت ان کا ساتھ دیگی، قارئین کرام اسرائیل کی ساری آبادی ستانوے لاکھ ہے، اور اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی آبادی ڈھائی ارب سے زیادہ ہے جو کہ دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ ہے، اس حساب سے ایک اسرائیلی کافر کے مقابلے میں قریباً ڈھائی سو مؤمن موجود ہیں، سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے فرق کے باوجود بھی اسرائیل کامیاب اور مسلمان ذلیل و رسوا کیوں ہیں؟، میری ناقص رائے میں اس کی دو بڑی وجوہات ہیں اگر ہڑتال سے زیادہ توجہ اس طرف ہو تو شاید فلسطین کی کوئی مدد ہو سکے، اولاً ہم میں اتفاق نہیں ہے اور وہ اس لئے کہ اختلاف رحمت ہے اور ثانیاً ہم علم، عمل، سائنس اور ٹیکنالوجی کی میدان میں بہت پیچھے ہیں اور ہڑتال میں چھٹیاں کرکے اور پیچھے ہوتے جاتے ہیں۔
