آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے

محکمہ تعلیم کی حالات زار اور امتحانی نظام کی اصلاحات کیلئے ہونے والی ہر کوشش کی ناکامی کے بعد محکمہ تعلیم اور تعلیمی نظام سے متعلق تمام انتظامات اور اداروں کی بندش ہی کی تجویز ذہن میں آتی ہے مگر یہ تجویز ظاہر ہے قابل عمل اس لئے نہیں کہ یہاں سرکاری سکولوں اور تعلیمی اداروں کا ہی باوا آدم نرالا نہیں بلکہ نجی تعلیمی ادارے بھی بدترین استحصال اور ٹکسالی نظام کی حامل مافیا ہیں پاکستان میں ایسے تعلیمی بورڈز موجود ہیںجن کا نظام امتحانات ہی قابل اعتماد نہیں بلکہ ان کے شفاف طرز امتحانات نے ان سے منسلک سکولوں اور تعلیمی اداروں کو معیاری ثابت کر دیا ہے اور ان کو بین الاقوامی طور پر مسئلہ سمجھنے کی پوری گنجائش موجود ہے لیکن اس کی مثال دینا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے کہ ہمارے ہاں اس کا تصور ہی نہیں اور نہی ان کی تقلید کا کسی کو شوق ہے ہمارے ہاں بدقسمتی سے جو بھی نیا تجربہ کیا جاتا ہے ایک یہ کہ بغیر تیاری کے آخری وقت میں بلا سوچے سمجھے اور بغیر منصوبہ بندی کے شروع کرنے کا رجحان ہے صوبے میں میٹرک کے امتحان کے بعد انٹر میڈیٹ کے امتحان میں وہی غلطی دہرانا حیران کن اس سے بھی باعث تعجب امر یہ ہے کہ میٹرک کے امتحانات میں ڈیوٹی کرنے والے مخصوص اساتذہ کو انٹرمیڈیٹ امتحان میں دوبارہ ڈیوٹیاں دے دی گئی ہیں ۔ مخصوص ڈیوٹی مافیا کے یہ اساتذہ پشاور بورڈ کے بعض اہلکاروں کی مبینہ ملی بھگت سے متعلقہ سکول سربراہوں سے اجازت لئے بغیر ہی ڈیوٹی پر چلے گئے ہیں جس کے باعث پشاور کے سکولوں میں نیا تعلیمی سال ابھی تک شروع نہیں ہو سکا اور سکولوں کو تدریسی عملہ کی شدید کمی کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پشاور کے مختلف سکولوں کے سربراہوں نے محکمہ تعلیم سے تحریری رابطے کرتے ہوئے پشاور بورڈ کی جانب سے مخصوص اساتذہ کی مسلسل ڈیوٹیوں کے حوالہ سے فوری اقدامات کی اپیل کی ہے۔ واضح رہے کہ محکمہ تعلیم کی جانب سے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ امتحانات کے دوران اساتذہ کو امتحانی ڈیوٹیاں تفویض کی جاتی ہیں لیکن اس سال ایک ہی اساتذہ کو میٹرک اور انٹر دونوں امتحانات میں ڈیوٹی دے دی گئی حالات سے ملی بھگت صاف ظور پر واضح اور پیشہ ور ممتحنین کا جادو ایک مرتبہ پھر سرچڑھ بولا ہے ایسے میں امتحانات کی شفافیت خودبخودمشکوک ہوجاتی ہے صرف یہی نہیں بلکہ وہ تمام تجربات بھی ھیچ اور رائیگاں چلے گئے جس کی اچھی ابتداء ضرور کی گئی تھی مگر بدقسمتی سے یہ بھی حالات کی نذر ہو گئے ۔اس امر کا جائزہ لیا جانا چاہئے کہ یہ نوبت کیوں آئی اور حکومت کی اچھی خاصی سعی کو یوں ناکام کیوں بنایا گیا اس میں کون کون لوگ ملوث ہیں اس کا جلد سے جلد تدارک اقدامات کرکے سازشی عناصر کوناکام بنایا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  فیلڈ مارشل جنرل حافظ سید عاصم منیرالحسنی