جنگ کھیل نہیں

دنیا کی تاریخ جنگوں سے بھری پڑی ہے جب سے انسانی تاریخ کو محفوظ کیا گیا ہے اس میں نوے فیصد تذکرہ جنگوں کا ہی رہا ہے ۔جنگ کوئی خوشگوار تجربہ نہیں ہوتا جنگ لڑنے والی اقوام ہمیشہ خسارے میں رہی ہیں ۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں انسانوں کو جس بے دردی کے ساتھ مارا گیا اس کے اثرات ابھی تک ان ممالک میں محسوس کیے جاسکتے ہیں جہاں یہ جنگیں لڑی گئیں ۔ محدود پیمانے پر پاکستان اور ہندوستان کی بھی جنگیں ہوئیں ہیں جس سے دونوں ممالک کو کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔حالیہ دنوں میں ہندوستان پاکستان کے عقل سے پیدل نوجوان سوشل میڈیا پر جنگی ماحول پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ ان میں سے کسی کو نہیں پتہ کہ جنگ ہوتی کیا ہے اور اس کے نتیجے میں کیا کچھ ہوسکتا ہے ۔ یہ سارے نوجوان اس بات سے بے خبر ہیں کہ جنگوں میںلوگ مرتے ہیں اور مسلسل مرتے ہیں ۔جنگ ختم بھی ہوجائے تو دہائیوں تک لوگ اس کے اثرات کی وجہ سے مرتے رہتے ہیں ۔جنگ تہذیب و تمدن اور معاشرتی واقتصادی ترقی کو کھا جاتی ہے ۔جنگ المیوں کو جنم دیتی ہے ۔ جنگ انسانیت کو مار دیتی ہے ۔جنگ وحشت کو دوام دیتی ہے اور جنگ بھوک افلاس اور ایک نہ ختم ہونے والے بے یقینی کو جنم دیتی ہے ۔ حالیہ برسوں میں شام کی مثال دی جاسکتی ہے ۔شام جو قدیم تہذیبوں کا مرکز تھا جہاں زندگی رواں دواں تھی جب اس کو جنگ کا سامنا کرنا پڑا تو اس کے شرفاء خواتین اور بچے سمندر کی مچھلیوں کا شکار ہورہے تھے ۔ان سب کو بھیک کی روٹی بھی میسر نہیں تھی وہ دنیا بھر سے رحم کی بھیگ مانگتے رہے مگر ان کو کم ہی کسی نے سہارا دیا ۔ فلسطین کے لوگوں کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے ۔ اس سے پہلے افریقہ کے کچھ ممالک کی مثالیں بھی موجود ہیں ۔ یوکرین کی مثال بھی ہمارے سامنے موجود ہے ۔ اس لیے جنگ کسی بھی مسئلہ کا کوئی پائیدار حل نہیں ہے ۔ہندوستان اور پاکستان دو ایٹمی قوتیں ہیں ان کی جنگ اگر خدانخواستہ ہوگئی تو اس کی تباہ کاریوں کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ ہندوستان میں جب وہاں کی حکومتوں کی عوامی حمایت میں کمی آتی ہے تو وہاں کے قوم پرست و مذہب پرست جنونی سیاست دان عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس طرح کے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں لیکن ہندوستان کو خوب معلوم ہے کہ وہ جنگ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور نہ ان کو جنگ میں فائدہ ہوسکتا ہے ۔اس سوشل میڈیا کے دور میں پروپیگنڈا کرنا بہت سہل ہوگیا ہے ۔ اور اب پروپیگنڈا کرنے کے لیے زیادہ محنت بھی نہیں کرنی پڑتی آپ سوشل میڈیا پر کچھ بھی ڈال دیں لوگ اسے پھیلانے کو اپنا فرض عین سمجھتے ہیں ۔جنگ صرف انسانی جانیں نہیںلیتی بلکہ جنگ انسانیت کو مار دیتی ہے ۔امن میں انسان بھوکا بھی رہ سکتا ہے مگر جنگیں انسان کی لاشعور میں خوف بٹھا دیتی ہیں ۔ ہمارا ملک اقتصادی بحرانوں سے نکل آیا ہے اور ترقی کی طرف گامزن ہوگیا ہے اگر اس ملک میں سیاسی استحکام آجائے اور معاشی پالیسیاں مزید بہتر بنا دی جائیں تو اس کی ترقی کی رفتار مزید تیز ہوسکتی ہے ۔ہندوستان نے بھی حالیہ برسوں میں معاشی اور اقتصادی ترقی کی ہے ان کو بھی اس بات کا احساس ہوگا کہ جنگ کی صورت میں ان کی یہ ترقی ختم ہوجائے گی اور وہ پھر سے غربت کا سامنا کریں گے ۔ پاکستان اور ہندوستان کی جنگ صرف ان دو ممالک کی جنگ نہیں ہوگی اس میں چین اور امریکہ بھی کود پڑیں گے جس سے اس کے دیگر خطوں میں پھیلنے کے خدشات بھی موجود ہیں ۔پاکستان اور ہندوستان دونوں کے پا س طویل فاصلے تک رسائی کے مہلک میزائل موجود ہیں جن کی وجہ سے بھی ان دونوں ممالک کی جنگ زیادہ مہلک ثابت ہوسکتی ہے ۔ یہ جنگ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ ثابت ہوسکتی ہے اس لیے دنیا بھر کے ممالک کسی بھی صورت ان ممالک کو آپس میں جنگ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ اس لیے کوشش کریں کہ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر جنگی فضا بنانے سے گریز کریں اور ہندوستان سے ہونے والے پروپیگنڈے کو یہاں پھیلانے میں ان کی معاونت نہ کریں ۔اس لیے کہ ان کے پروپیگنڈے کا جتنی مرتبہ جواب دیا جائے گا وہ اتنی ہی زیادہ تعداد میں شیئر ہوکر دیگر لاکھوں لوگوں تک پہنچے گا اور اس سے ہندوستان کے پروپیگنڈا کرنے والوں کا مقصد پورا ہوگا ۔اس پروپیگنڈا کا ملکی معاشی اور اقتصادی تر قی پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے ۔ اس سے اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار میں مندی آجاتی ہے ۔ملک میں سرمایہ کاری اور دیگر کاروباروں پر اس کااثر پڑتا ہے ۔ لوگ ذہنی طور پر متاثر ہوتے ہیں اور ان کادھیان اپنے کاموں سے ہٹ کر خوف اور بے یقینی کا شکارہوجاتا ہے ۔ ماضی کے مقابلے میں اب لوگوں کی بے احتیاطی زیادہ نقصان پہنچاتی ہے اس لیے کہ لوگ پہلے صرف چند لوگوں کو گمراہ کرسکتے تھے مگر اب سوشل میڈیا کی وجہ سے وہ کروڑوں لوگوں کو غلط راستے پر ڈال لیتے ہیں ۔ اب تو حد یہ ہوگئی ہے کہ ملک کی پرواہ کرنا نوجوانوں نے چھوڑ دیا ہے ان کے ذہنوں میں شخصیت پرستی اس حد تک آگئی ہے کہ وہ اس شخصیت کی پرستش میں یہ بھول گئے کہ شخصیات سے پہلے ملک اہم ہے ۔ ہر سیاسی جماعت کے اپنے اپنے ایجنڈے ہوسکتے ہیں مگر ملک کا مفاد اور تحفظ سب کا مشترکہ ایجنڈا ہونا چاہئیے ۔ پاکستانی فوج کمزور نہیں ہے اور گزشتہ چالیس برسوں سے مختلف سرحدی علاقوں میں سخت ترین ماحول کا سامنا کرتی رہی ہے اور اس وقت اس کے پاس جدید ترین ہتھیار اور جنگی سازو سامان موجود ہے اس کے ساتھ ساتھ فوج کے جوانوں میں جو ش اور ولولہ بھی موجود ہے مگر اس کے باوجود پاکستان کے لیے جنگ کا ہونا یا جنگ کا ماحول سود مند نہیں ہے اس لیے ہماری فوج انڈیا اور افغانستان کے سرحدوں پر انتہائی صبر سے کام لیتی ہے اور جوش کی جگہ ہوش کا استعمال کرتی ہے ۔ دنیا میں اب فوجیں اور اسلحہ حفاظت اور جنگوں سے محفوظ رہنے کے لیے ہوتا ہے اس لیے کہ دنیا نے مہلک ترین ہتھیاروں میں بہت پیش رفت کرلی ہے اب منٹوں میں شہروں کو کھنڈر میں بدلا جاسکتا ہے مگر ایسا کرنا کا کوئی بھی نہیں سوچتا ۔اس لیے ایسے وقت میں جنگوں کی باتیں کرنا اور گھر بیٹھے موبائل پر پروپیگنڈا کرنے سے پرہیز کریں ۔کوشش کریں کہ سوشل میڈیا پر ہندوستانی چینل نہ دیکھیں اور حکومت پاکستان کو چاہئیے کہ وہ کیبل اورڈش کے ذریعہ ہندوستانی چینلوں پر پابندی لگائے اور پی ٹی اے ہندوستانی وہ سوشل میڈیا اکاونٹس جن سے جنگی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے ان کو فائر وال کے ذریعہ بندکرے ۔ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے ہندوستان کے جنگی جنون کو سفارتی ذرائع سے دنیا کے سامنے لائے اور اقوام متحدہ اور دیگر فورمز کو اس سلسلے میں آگاہ کرے ۔بیرون ملک پاکستانیوں کو چاہئیے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں اور ہندوستان کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لائیں ۔ پاکستان گزشتہ چالیس برسوں سے دہشت گردی کا شکار ہے اور اس دہشت گردی میں ہندوستان براہ راست ملوث رہا ہے مگر پاکستان نے کبھی بھی اس کو بنیاد بنا کر جنگی ماحول پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی اور یہی اس کی باوقار اور ذمہ دار ملک ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے ۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی کی نئی لہر کا خطرہ