پرانے خواب کی تعبیر

پاکستان کی حدود میں Hot pursuit بھارت کا ایک دیرینہ خواب تھانوے کی دہائی میں جب کشمیر میں مسلح سرگرمیاں زوروں پر تھیں بھارت کی خواہش اور کوشش تھی کہ اسے کشمیری حریت پسندوں کے گرم تعاقب کا موقع میسر آئے ۔اس کا مطلب یہ تھا کہ بھارتی فورسز کو آزادکشمیر کی حدود میں محدود کارروائی کا اختیار مل جائے ۔نوے کی دہائی میں جوں جوں بھارت اور اسرائیل کے تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوتی چلی گئی۔اسرائیل کیساتھ تعلق مضبوط ہونے کیساتھ ہی بھارت کی آزادکشمیر کی حدود میں کاروائیاں کرنے کی خواہش بھی زور پکڑتی گئی مگر پاکستان کی طرف سے ردعمل کا خوف بھارت کی اس خواہش کے پیروں کی مستقل زنجیر بنا رہا ۔پاکستان نے اپنی جغرافیائی اور فضائی حدود کو ریڈ لائن قرار دئیے رکھا ۔ بھارت کے دفاعی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کی طرف سے ایک دور میں اسے گرم تعاقب کا نام دیا جاتا تھا بعدمیں اس خواہش کو سرجیکل سٹرائیکس کہا جانے لگا ۔اس خواب کا پس منظر یہ تھاکہ پاکستان اور آزادکشمیر سے مقبوضہ کشمیر کی حدود میں دراندازی کی جاتی ہے بجائے مقبوضہ کشمیر تک حملہ آوروں کے پہنچنے کا انتظار کیا جائے کیوں نہ آزادکشمیر کی حدود میں داخل ہو کر ان مسلح افراد کے کیمپ تباہ کئے جائیں۔اس خواب نما خواہش کا مرکزی خیال یہی تھا مگر ہر خواہش تکمیل اور ہر خواب تعبیر کی منزل پر نہیں پہنچتا سو بھارت بھی مدتوں سے یہ خواہش دل میں بسائے اورخواب آنکھوں میں سجائے رہا۔ نریندر مودی کے بھارت کے قومی اور سیاسی منظر پر اُبھرنے کے بعد اس خواہش کا زیادہ شدومدسے اظہارکیاجانے لگا۔ 2015 میں خواہشات اور خوابوں کا یہ خالی پیمانہ ایک بھارتی وزیر کی زبان سے چھلک پڑا ہے ۔کہا گیا کہ بھارتی فوج نے برما کی حدود میں داخل ہو کر باغیوں کے دو کیمپ تباہ کر دئیے ہیں ۔یہ پاکستان جیسے ملکوں کے لئے بھی سبق ہے ۔اس سے کچھ ہی عرصہ پہلے بھارت کی ریاستوں میں ناگالینڈ اور منی پور میں باغیوں کی سرگرمیوں میں اچانک تیزی آگئی تھی ۔ان باغیوں کا الزام ہے کہ بھار ت ان ریاستوں کے قیمتی معدنی وسائل لوٹ رہا ہے مگر مقامی آبادی کے حصے میں محرومی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ان ریاستوں میں طویل عرصے سے بغاوت اور علیحدگی کی تحریکیںزوروں پر ہیں۔ باغیوں کی طرف سے بھارتی فوج پر ایک زوردار حملہ ریاست منی پور میں اس وقت ہوا تھاجب بھارت کی پیرا ملٹری فورسزکو ایک ٹرک کے ذریعے فوجیوں کو ایک مقام سے دوسری جگہ منتقل کیاجا رہا تھا ۔اس حملے میں آٹھ بھارتی فوجی مارے گئے تھے ۔دوسرا حملہ ریاست انہی دنوں ناگالینڈ میں ہوا تھاجس میں باغیوں نے راکٹوں اور خود کار ہتھیاروں کا استعمال کرکے چودہ بھارتی فوجی مار دئیے تھے ۔ان حملوں کے جواب میں بھارتی فوج نے برماکی سرحد کے اندر باغیوں کے ٹھکانوں پر حملہ کرکے دوکیمپ تبا ہ کر دئیے ۔ان حملوں کے بعد بھارت کے وزیر مملکت راجیہ وردھن سنگھ راٹھور نے انڈین ایکسپریس کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا تھاکہ برمی سرحد کے اندر باغیوں کے خلاف کارروائی پاکستان سمیت ان تمام ممالک کے لئے ایک پیغام ہے جہاں بھارت مخالف شدت پسندانہ نظریات والے لوگ بستے ہیں ۔ دوسری طرف برما نے اپنی حدود میں کسی کیمپ کی موجودگی کی تردید بھی کی تھی اور ساتھ ہی بھارتی فوج کی طرف سے ایسی کسی کارروائی سے بھی انکار کیاتھا ۔جس کے بعد بھارتی فوج کی جاری کردہ تصاویر کی حقیقت پر بھی سوال اُٹھائے گئے تھے۔ بھارتی حکومت اپنے اس دعوے کی حمایت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی تھی۔حد تو یہ کہ اسی وقت عمر عبداللہ نے ٹویٹر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ برماکی تردید نے بھارت کے موقف کو نقصان پہنچایا ہے ۔برما کی حدود میں فوجی کارروائی میں پاکستان کا اشاروں کنایوں میں ذکر بھارت کی دیرینہ خواہش کا آئینہ دار تو تھا مگر یہ خواہش بھارتیوں کے دلوں میں ہی انگڑائیاں لے کر و ہیں دفن ہوتی رہی ہے ۔آزادکشمیر میں حریت پسندوں کے گرم تعاقب کی خواہش مدتوںسے بھارتیوں کے دلوںمیں تڑپتی مچلتی رہی ۔نوے کی دہائی میں جب کشمیر میں عسکری محاذ گرم تھا اور حریت پسند بھارتی فوج پر شدید حملے کر رہے تھے بھارت کی طرف سے کبھی کبھار آزادکشمیر میں عسکری کیمپوں پر حملوں کی خواہش کا اظہا رکرتے تھے ۔ بھارت کامیڈیا حکومت اور فوج کو حریت پسندوں کے تعاقب میں کنٹرول لائن عبور کرنے کے مشورے دیا کر تا ہے ۔ممبئی حملوں کے بعد بھارت نے کسی بیرونی چینل سے باضابطہ طور پر پاکستان سے یہ فرمائش کر دی کہ اسے آزادکشمیر کی حدود میں کسی بھی جگہ لشکر طیبہ کا کیمپ ظاہر کرکے علامتی کارروائی کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ اپنی مشتعل رائے عامہ کا غصہ ٹھنڈا کیا جا سکے ۔اس کے لئے مظفرآباد کے شوائی نالہ کا ذکر بطور خاص کیا جاتاتھا ۔یہ وہی مقام ہے جہاں اب بلال مسجد قائم تھی ۔ ممبئی حملوں کے بعد ہی بھارت کی اس خواہش میں کئی مغربی ممالک بھی شامل ہو گئے تھے ۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ قبائلی علاقوں میںتواتر کیساتھ ڈرون حملے کر رہا تھا ۔بھارت کے تزویراتی ماہرین کے دل میںاسی طرز کی کاروائیوں کی خواہش انگڑائیاں لینا فطری سا تھا۔مطالبہ اور فرمائش صرف یہ تھی کہ پاکستان ان حملوں پر جوابی ردعمل ظاہر نہ کرے ۔حیرت اس پر تھی کہ بعض مغربی اور ممالک بھی خواہش کی وکالت شروع کرنے لگے تھے ۔پاکستان نے اس خواہش اور مطالبے کے جواب میں سیدھا جواب دیا تھاکہ پاکستان اور آزادکشمیر کی حدود کے ایک انچ اندر ہونیوالی کسی بھی کارروائی کو اعلان جنگ اور حملہ تصور کیا جا ئیگا اور اس کا جواب اسی طرح دیا جائے گا جیسا کہ حملوں کا دیا جاتا ہے ۔ایک ایٹمی طاقت کی طرف سے اس طرح کا لب ولہجہ بھارت اور امریکہ کے پریشان کن تھا ۔پاکستان نے صاف بتادیا کہ ممبئی حملوں کی وجہ سے ناراض بھارتی رائے عامہ کو مطمئن کرنا بھارت کی ذمہ داری ہے پاکستان اپنی سرزمین بھارتی رائے عامہ کو خوش کرنے کے لئے استعمال نہیں ہونے دے گا ۔اس طرح گرم تعاقب کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ۔ اس کے کئی برس بعدجب برما کی حدود میں سرجیکل سٹرائیکس کا ناٹک رچایا گیا تواس کا اصل مقصد پاکستان کو ہی پیغام دینا تھا اور اپنی حدود سے باہر نکل کر امریکہ کی طرح preemptive حملے کے حق کے استعمال کی مشق کرنا اور اسے دنیا کیلئے معمول بنانا تھا ۔امریکہ اس وقت پیشگی حملے کی اصطلاح کا استعمال کرکے خطے میں کاروائیاں کر رہا تھا ۔ اس اصطلاح کا مطلب یہ تھا کہ جہاں سے بھی مستقبل کے خطرے کا احساس یا خطرہ ہو وہاں آگے بڑھ کر خطرے کو دبوچ لیا جائے ۔برما کی حدود کے اندر بھارتی فوجی کی فرضی کارروائی کے بعد بھارتیوں کے دل میں پھر یہ خواہش انگڑائی لیتی ہوئی دکھائی دی ۔ اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان میانمار کی کاروائی میں چھپی خواہشات کے جواب میں کہہ اُٹھے تھے کہ بھارت یہ بات بھول گیا ہے کہ برما اور پاکستان میں زمین وآسمان کا فرق ہے ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ پاکستان ایک ایسی ایٹمی طاقت ہے جس کا سار ا تصور دفاع بھارت سے دفاع اور بھارت پر حملے کے گرد گھومتا ہے ۔اس کی فوجی اُٹھان اس کی عسکری تیاریاں میزائل سازی ،بحری سرگرمیاں سب اسی تصور سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  امن کی طرف بتدریج واپسی