پاک بھارت جنگوں کی پوری تارخ نظروں کے سامنے گھوم رہی ہے ‘ 1948ء کے کشمیر پر بھارت کے ناجائز قبضے کے بعد آزاد کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کرانے میں پاکستان کے قبائلی مجاہدین کے کردار سے لے کر رن آف کچھ کے معرکے میں بھارتی افواج کی پسپائی سے سبق سیکھنے کے باوجود بھارتی حکمرانوں نے 1965ء میں ایک بار پھر رات کے اندھیرے میں پاکستان پر حملہ کرکے اور بی آر بی نہر کو عبور کرنے کے بعد شام کی چائے لاہور گریژن کلب میں ”انجوائے” کرنے کا جو خواب دیکھا تھا اسے میجر عزیز بٹھی شہید(نشان حیدر) اور ان کے ساتھیوں نے اپنے خون کا نذرانہ دے کر چکنار چور کر دیا تھا اور اس کے بعد دیگر سیکٹروں میں بھارت نے اپنے ٹینکوں کے یلغار سے پاکستان کو ”فتح” کرنے کا خواب دیکھا تو پا کستان کے عظیم جیالے فوجیوں نے دنیا کی انوکھی جنگ سے بھارت کو سبق سکھاتے ہوئے یعنی اپنی جسموں سے بم باندھ کر اس ٹینکوں کی یلغار کو جس طرح روکا جب اس کی فلمیں غیر ملکی میڈیا پر چلیں تو انگلستان کے ایک کیفے میں انگریزوں نے احترام میں کھڑے ہو کر اور اپنے کیپ سروں سے اتار کر پاکستانی افواج کو عظمت کو خراج تحسین پیش کیا ادھر ملک کے اندر پاکستانی افواج کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ملکہ ترنم نورجہان نے ایک ایسے نغمے کو اپنی آواز سے جاوداں کر دیا جس کے بول تھے”اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے ‘ توں لبھدی پھرے بزار کڑے” اسی طرح مہدی حسن ‘ اقبال بانو اور دیگر لاتعداد گلوکاروں نے شعرائے کرام اور موسیقاروں کے تعاون سے نئے ملی نغمے تخلیق کرکے قوم کے خون کو گرمانے میں جو کردار ادا کیا اس میں ریڈیو پاکستان کا کردار کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جبکہ اہم ترین کردار ریڈیو پاکستان کے نیوز سیکشن اور پروگرام سیکشن کابھی تھا ان دنوں اردو خبریں پڑھنے کے لئے شکیل دادا ‘انور بہزاد جبکہ انگریزی خبروں کے لئے انیتا غلام علی اور دیگر کئی نیوز ریڈرز نشریات کے ذریعے اپنی دھاک بٹھا رہے تھے ‘ اسی طرح بھارتی پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لئے پشاور ریڈیو سے استاد محترم مرحوم باسط سلیم صدیقی دن گیارہ بجے کی خبروں کے بعد اپنے پروگرام”سچ کہدوں اے برہمن ” کے ذریعے اپنی گرجدار آواز میں جس طرح بھارتی مذموم پروپیگنڈے کو پاش پاش کرتے ہوئے تازہ ترین حالات کا تجزیہ کرتے ‘ ان کے اس پروگرام کی مقبولیت کا یہ حال تھا کہ لوگ گھروں کے علاوہ بازاروں میں عام دکانوں پرجنگی حالات سے باخبر رہنے کے لئے ریڈیو اونچی آواز میں لگا کر جس طرح حظ اٹھاتے تھے خبروں کے فوراً بعد باسط سلیم صدیقی مرحوم کے پروگرام کو سننے کے لئے بازاروں میں ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جایا کرتے تھے اور 6ستمبر سے 21 ستمبر کے 15روزہ جنگ کے دوران اور اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا ‘ حالانکہ اس سے پہلے لوگوں کا عمومی رویہ یہ تھا کہ وہ ریڈیو پاکستان کی نشریات کے مقابلے میں زیادہ تر بی بی سی کی خبروں پر اعتماد کرتے تھے ‘ جبکہ بھارتی آکاش وانی کی نشریات خصوصاً دوپہر اور رات کے اوقات میں بھارتی فلمی گیتوں کے پروگرام زیادہ دلچسپی سے سنی جاتیں جن کے درمیان میں پانچ پانچ منٹ دورانئے کی تقاریر اور سیاسی تجزیے شامل کرکے بھارتی مذموم پاکستان مخالف پروپیگنڈے کا پرچار کیا جاتا جو کسی نہ کسی حد تک پاکستانیوں کے ذہنوں کو متاثر اور پراگندہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا تھا مگر جیسے ہی 1965ء کی پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوا اور ریڈیو پاکستان کے نشریاتی ماہرین کی باکمال منصوبہ بندی نے چو مکھی ”لڑائی” لڑتے ہوئے بی بی سی ‘ آل انڈیا ریڈیو(کسی حد تک وائس آف امریکہ ‘روسی ریڈیو وغیرہ) کی بی بی سی بیسڈ اور آل انڈیا بیسڈ خبروں کا مقابلہ کرتے ہوئے جس طرح ان عالمی نشریاتی اداروں کی خبروں کو جھوٹا ثابت کرنے اور عالمی برادری کے سامنے سچ لا کر رکھنے کی کامیاب کوششیں کیں اس کے بعد پاکستانی عوام نے صرف اور صرف پاکستانی نشریات پر ہی اعتماد کیا اس صورتحال سے پریشان ہو کر آل انڈیا ریڈیو میں ایسے ”مزاحیہ پروگرام” شروع کئے گئے جن میں پاکستان کے اہم نیوز ریڈروں جیسی آوازوں کے ذریعے مذاق اڑانا شروع کیا گیا تاہم بھارتی نشریاتی سٹریٹیجی بالکل ناکام ہو کر رہ گئی۔
دنیا بہت بدل گئی ہے مگر پروپیگنڈے کے محاذ پر جدید ترین ٹیکنالوجی چھا جانے کے باوجود اس بنیادی ”سبق” کو بھارتی کذب بیانوں نے بھلانے کی کوئی کوشش نہیں کی جو ان کے لئے توہین کا باعث بن رہا ہے پہلگام میں خود بھارتی چالبازوں نے جو فالس فلیگ آپریشن کرکے اس کا الزام پاکستان پر لگانے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کی اور بغیر کسی تحقیق کے واقعے کے چند منٹ بعد یہ پاکستان کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کی جھوٹ کا طومار باندھا اور پھر پاکستان پر نہ صرف ڈرون اٹیک کئے رافیل جیسے (بظاہر قابل فخر) طیاروں کے ذریعے پاکستان پر حملہ آور ہونے کی کوشش میں بظاہر پانچ لیکن بعض دعوئوں کے مطابق چھ طیارے گنوائے اور اسے آپریشن سیندور کا نام دیا مگر تازہ معلومات کے مطابق اس حملے میں بھی ایک بھارتی مہلا پائٹ(خاتون پائلٹ) کو ابھی نندن کی طرح پاکستان کے ہاتھوں (Capture) کروایا اب اس پر سوشل میڈیا پر ممیز بن رہی ہیں کہ محولہ خاتون پائلٹ نے ”سندور” لگایا تھا یا نہیں ادھر اور تو چھوڑیئے چین سے تعلق رکھنے والے ٹک ٹاکرز نے بھی ایک ٹک ٹاک پوسٹ کے ذریعے جس طرح بھارتی میڈیا اور سرکار کے جھوٹے دعوئوں کی بھد اڑاتے ہوئے ان کا مذاق اڑایا ہے وہ تیزی سے وائرل ہو رہا ہے اسی طرح بعض ”نکتہ وروں” نے بھارت کی جانب سے (ناقابل تسخیر) رافیل طیارے کی پاکستان پر حملے کے نتیجے میں تباہ ہونے اور مگ کے علاوہ ایک سخوئی طیارہ بھی شامل ہے کو بھی کس خوبصورتی سے الفاظ کے گورکھ دھندے کے ذریعے بھارت کے ”تفاخر” کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے اور ”رافیل” کے نام کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اور اسے (را۔۔۔فیل) کے الفاظ میں ڈھال کر بھارتی خفیہ ایجنسی”را” کی ناکامی سے تشبیہ دی ہے اور اس حوالے سے اب سوشل میڈیا پر ممیز کا ایک طوفان برپا ہے جبکہ پاکستانی فوج کے ترجمان نے گزشتہ روز بھارتی جھوٹ کو بے نقاب کرتے ہوئے کہ پاکستان نے بھارت میں حملوں کے ذریعے عوامی مقامات کو نشانہ بنایا ہے کہا ہے کہ ”پاکستان تو ابھی صرف بھارتی حملوں کو روکا ہے اور جواب میں کوئی کارروائی نہیں کی اور جب ایسی کوئی کارروائی ہوگی تو ہمیں یا بھارت کو بتانے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ دنیا کو پتہ چل جائے گا کہ پا کستان نے حملہ کیا ہے ” اور اب پاکستان نے ”بنیان مرصوص” کے نام جو آپریشن لانچ کر دیا ہے تو واقعی دنیا کو معلوم ہوگیا ہے کہ ”بابا کیستی؟” یعنی جہاں جہاں پاکستان کے حملہ کرکے بھارت کو ہیکڑی بھلادی ہے اور بھارت بقول شاعر کہنے پر مجبور ہے کہ
اب رفوگر بھی کہاں تک کرے محنت مجھ پر
زخم اک سلتا نہیں دوسرا لگ جاتا ہے
اور صورتحال تو یہ ہے کہ خود بھارتی میڈیا نے بھی بھارت کے مختلف علاقوں میں(صرف فوجی تنصیبات پر ان حملوں کی صداقت تسلیم کر لی ہے بھارتی حکمرانوں کی کیا حالت ہو گی یقینا انہیں اپنی غلط پالیسیوں اور پاکستان کو کمزور سمجھنے کی بے وقوفی کا احساس ہو رہا ہو گا اور بقول نظیر کھتولوی ان کی کیفیت یہ ہو گی کہ
اشکوں سے ہیں نظیر کی آنکھیں بھری ہوئی
پھرتا ہے کشتیوں میں سمندر لئے ہوئے
