اپنے چند احباب جن کا صحافت ، سیاست اور فوج سے کوئی تعلق نہیں ، پاک بھارت کے درمیان موجودہ جنگی صورتحال کے حوالہ سے یہ تشویش ظاہر کر رہے تھے کہ پرانے زمانہ کی لڑائیوں کے مقابلہ میں آج کل دنیا میں جنگیں جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر ہو رہی ہیں ، جو انسانی زندگی پہ منڈلانے والا ایک مستقل خوف ہے ۔ پہلے لڑائی کسی میدان جنگ میں ہوا کرتی مگر اب شہری آبادیوں کا نشانہ باندھا جاتا ہے اور پل بھر میں تباہی ہو جاتی ہے ۔ یہی سوچ کر پریشانی ہوتی ہے کہ آخر یہ ترقی یافتہ ممالک سب کے لیے امن کو مشکل اور جنگ کو آسان کیوں خیال کرتے ہیں ۔ اس تناظر میں اگر دوسری عالمی جنگ کے بعد کی تاریخ دیکھیں تو بھارت کے ساتھ ہماری تین چار جنگیں ہوئیں بلکہ ہر وقت جنگ کی حالت میں مبتلا رہتے ہیں ۔ ویت نام کی طویل جنگ کے بارے سب کہتے کہ شاید یہ دنیا کی آخری جنگ ہو ، پھر افغانستان میں روس اور امریکہ کی لڑائی ، ایران اور عراق دس سال تک مد مقابل رہے اور فلسطینی ایک مدت سے ظلم و تشدد کا شکار ہیں ۔ نتائج سب کے سامنے ہیں ، اپنے پڑوس افغانستان کی جنگ میں بھلا کون فاتح رہا ؟ دو بڑی عالمی طاقتیں یہاں سے اپنی جان چھڑا کر بھاگ گئیں اور افغانستان کو جانی ، مالی اور نسلی اعتبار سے تباہ کر دیا ۔ اس کے معاشی اور سماجی اثرات سے اپنا مُلک شدید متاثر ہوچکا ہے ۔ ان جنگوں کے بعد بھی متاثرہ ممالک کو اپنے حالات بہتر کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا ۔ افغانستان، شام ، لیبیا ، عراق ، سوڈان اور یمن کو دیکھ چکے ہیں کہ وہاں رہنے والے نفسیاتی اُلجھن سے باہر نہیں نکلے بلکہ معاشرے کا داخلی توازن بحال نہیں ہو سکا ۔ یہ سب کچھ بڑی ریاستوں کے عالمی نظام کا کیا دھرا ہے جو محض انارکی ہے ۔
بھارت کی طرف سے جنگی پہل اور چند روز سے جاری کشیدہ صورتحال سب کے لیے تشویشناک ہے ، دونوں مُلکوں کے درمیان کشیدگی کا کوئی جواز ایسا نہیں جو جنگ کا باعث بنے ۔ مئی 1998ء میں بھارت اور پاکستان کے ایٹمی دھماکوں اور چین کے بڑھتے اثر ورسوخ کی بنا پر جنوبی ایشیا میں امریکہ اور یورپی ممالک اپنی عسکری اور معاشی موجودگی یقینی بنائے ہوئے ہیں ۔ بلکہ یہ خطہ اب دنیا کی تمام طاقتوں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے ۔ اس بنا پر پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ کا خطرہ خصوصاً جب دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں’ دونوں ممالک کے عوام اورعالمی برادری کے لیے تشویش کی وجہ ہے۔ پاک بھارت کے درمیان جنگ کا سوچنا بھی مناسب نہیں کہ دو ایٹمی ہمسایہ مُلکوں کی لڑائی مکمل تباہی ہو گی ۔ یہی ہماری سوچ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کا مقصد جنگ کے امکانات کو محدود یا حتمی الامکان ختم کرنا تھا’ اور اب بھی ہے’ مگر دونوں جانب سوچ کے دھارے کچھ مختلف رہے ہیں۔یہ سب جانتے ہیں کہ جب کسی غلط فہمی ، سیاسی مفاد اور توسیع پسندی کی وجہ سے کہیں جنگ چھڑ جائے تو پھر یہ سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔ یہ تو اچھا ہوا کہ ماضی میں امریکہ اور سوویت یونین نے ایک دوسرے کی جوہری طاقت کو تسلیم کر لیا اور ایٹمی ہتھیار اس سرد جنگ میں استعمال نہ ہو سکے ۔ سرد جنگ کے خاتمہ اور سوویت یونین کی تقسیم کے بعددنیا کی سوچ بدل گئی ہے اور کئی ممالک قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھا کر غربت’ پسماندگی اور بیماریوں کو دور کرنے میں مصروف ہیں ۔ یہ ممالک جدید ٹیکنالوجی سے کام لے رہے تا کہ خوشحالی کو پروان چڑھایا جا سکے ۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب امن ہو اور ہماری سلامتی کو کوئی خطرہ درپیش نہ ہو ۔ پاک بھارت کی حالت یہ ہے کہ غربت اور پسماندگی سے دوچار ہے اور ایک اکثریت کو صحت’ تعلیم کی بنیادی سہولت حاصل نہیں ایسے میں گزشتہ چند دنوں سے میڈیا پر افلاطون مبصر اور جنونی عناصر جنگ لڑنے کی باتیں کررہے ہیں اور شور مچا رہے ہیں کہ دشمن کو تباہ کر کے رہیں گے ۔ یہ درست ہے کہ ہر مُلک جوابی کارروائی کا حق رکھتا ہے مگر بہتر یہی ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک کو دُور کی فکر کرنی چاہیے ۔ ہمارے ہاں سیاسی شخصیات کی پوجا کرنے والوں کی بھی کمی نہیں جو موجودہ صورتحال اور جنگی حملوں کو مُلکی مفاد کی بجائے اپنی پسندیدہ شخصیات کے حوالے سے جانچ رہے ہیں اور یہاں تک کہ اپنے مُلکی اداروں کی تضحیک بھی کر رہے ہیں ۔ شاید وہ یہ نہیں سمجھتے کہ باقاعدہ جنگ شروع ہو گئی تو تباہی کچھ کم کچھ زیادہ سب کی ہو گی ۔ دونوں ممالک کے لیے جنگ سے گریز بہت اہم ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں اپنا مفاد رکھنے والے یورپی ممالک ، امریکہ اور چین کی بھی یہی ضرورت ہے کہ امن رہے کیونکہ اب یہ سرد جنگ کا زمانہ نہیں اور بہتر معیشت ہی سب کی اولین ترجیح ہے ۔ اس حوالہ سے بین الاقوامی برادری متفق ہو چکی ہے کہ تصادم پیدا نہ ہو اور خطہ میں مستقل امن قائم رہے لیکن اس کے لیے براہ راست مذاکرات پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے ۔ امن کو پیش نظر رکھتے ہوئے پہلے تصادم پیدا کرنے والے اسباب کو دُور کرنا لازمی ہے ، اگرچہ دونوں مُلکوں کے درمیان ایک خلیج حائل ہے لیکن اس کے باوجود مذاکرات کے ذریعے تمام مسائل کا حل ممکن ہے ۔ یہی ایک ٹھوس حقیقت ہے اور دونوں پڑوسیوں کو اپنا رویہ بدلنا ہو گا ۔
