وزارت خارجہ کی وضاحت ؟

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت نے جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے لیکن جنگ بندی کو درست تناظر میں دیکھنا ضروری ہے، گزشتہ روز ایک بیان میں وزارت خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے کہا ہے کہ بھارت نے پاکستان کی حدود میں براہموس میزائل داغے ،بھارت کی جارحیت پرپاکستان نے اقوام متحدہ کے آرٹیکل51کے تحت دفاع کیا، بھارت نے7تا10مئی حملے کئے، بھارتی حملوں میں خواتین ،بچوں سمیت معصوم جانیں ضائع ہوئیں، عبادت گاہوں سمیت انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا ،انہوں نے کہا کہ بھارت نے وفاقی دارالحکومت سمیت کئی علاقوں پر قاتل ڈرونز بھیجے، بھارتی میزائل حملوں سے شہری و فوجی اثاثے نشانہ بنے، امر واقعہ یہ ہے کہ بھارت پاکستان کا ایک ایسا دشمن ہے جس کی منافقت میں کوئی شک اور شبہ نہیں ہے، اور یہ سبق اسے ہزاروں سال قبل گزرے ہوئے سیاسی فلسفی شری اچاریہ کوٹلیہ چانکیہ کی تعلیمات سے ورثے میں ملا ہے جس کی تعلیمات ایک اور مغربی فلسفی نیکولو میکاولی کے مشابہ ہیں، دونوں نے اپنے اپنے ادوار کے حکمرانوں کیلئے حکمرانی کے جو اصول وضع کئے ان کی بنیاد جھوٹ، مکر، فریب اور منافقت پر استوار ہے، اس لئے ضرورت پڑنے پر بھارتی حکمران بھی فوراً گھٹنوں پر آ کر پیر پکڑنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرتے، مگر دوبارہ موقع ملتے ہی پیٹھ میں چھرا گھونپنے سے نہیں چوکتے، اب بھی یہی صورتحال ہے کہ جیسے ہی بھارتی جارحیت کا مسکت جواب دیتے ہوئے افواج پاکستان نے بھارتی غرور کو خاک میں ملاتے ہوئے اس کی حربی قوت کو تہس نہس کیا تو اس نے عالمی برادری کی منت ترلے کر کے جنگ بندی کی بھیک مانگنا شروع کر دی، تاہم پاکستان کی جانب سے جنگ بندی پر راضی ہونے اور مزید حملوں سے ہاتھ روکنے پر آمادگی کے بعد اس پر عمل شروع کیا گیا تو بعض اطلاعت کے مطابق اکا دکا جگہوں پر پھر حملوں کی اطلاعات موصول ہونا شروع ہوئیں جبکہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے پر اپنے تازہ بیانیئے سے پیچھے ہٹ جانے سے بھی انکار کر دیا ہے، جو یقینا قابل تشویش امر ہے، اس لئے پاکستان کے ذمہ دار حلقوں کو بھارت کے مکر و فریب اور چالاکی سے ہوشیار رہنا چاہیے اور آج (12 مئی) کو اس حوالے سے جنگ بندی کی شرائط طے کرتے ہوئے ہر اس سوال کو مذاکرات کی میز پر رکھ دینا چاہیے جو دونوں ملکوں کے درمیان وجہ تنازعہ ہو، اگر ایسا نہ کیا گیا تو سندھ طاس معاہدے پر مستقبل میں مزید جھڑپوں کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

مزید پڑھیں:  لوڈ شیڈنگ اور راہزنی کی وارداتیں