ہندوستان کی جانب سے 22 اپریل کے واقعہ پہلگام کے بعد پاکستان کیخلاف شروع کردہ شدید فوجی محازآرائی 18 دن مکمل کرنے کے بعد 10 مئی کو ہندوستان کے وقت کے مطابق شام پانچ بجے پاکستان کو غیر معمولی فوجی ، سفارتی اور اخلاقی کامیابیوں سے ہمکنار کر کے اختتام پذیر ہو گئی ہے۔ یہ فوجی کشیدگی 6 اور 7 مئی کو ہندوستان کی جانب سے پاکستان کے چھ سرحدی شہروں میں میزائل حملوں اور اس دوران پاکستان کی جانب سے ہندوستان کے پانچ جدید ترین جنگی مار جہاز مار گرائے جانے کے بعد اپنے اختتام پر آ سکتی تھی جس کا ذکر وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ایک ٹی وی چینل سے گفتگو میں بھی کیا لیکن اس دوران ہندوستان کی مسلسل پاکستان کے اندر ڈرون اور میزائل حملوں نے پاکستان کو مجبور کر دیا کہ وہ ہندوستان کے آپریشن سیندور کے جواب میں اپنا آپریشن بنیان مرصوص شروع کرے۔ یہ آپریشن علی الصبح 10 مئی کو شروع ہوا اور دوپہر ہونے تک ہندوستان کی فوجی و ٹیکنالوجی برتری کے سارے بتوں کو زمین بوس کر چکا تھا۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے اسلام آباد میں موجود سفارتی نمائندے نک رابرٹ سن کے مطابق پاکستان کی شدید فوجی کارروائی نے بھارتی قیادت کو مجبور کر دیا کہ وہ امریکی قیادت سے رابطہ کر کے جنگی صورتحال کو روکنے کیلئے بات کرے۔ اگرچہ سعودی، ایرانی ، اماراتی اور قطری سفارت کار اور کچھ مغربی ملکوں کیساتھ ساتھ چائینہ و برطانیہ کے سفارت کار بھی پاکستان انڈیا کے درمیان اس فوجی کشیدگی کو کم کرانے کی کوششوں میں ایک مئی کے بعد سے مصروف تھے، لیکن انڈیا کے میڈیا کے قائم کردہ ایک طاقت کے گھمنڈ اور مودی حکومت کی سیاسی سوچ نے اس بات چیت کو اور ثالثی کی کوششوں کو ہندوستان کے فیصلہ سازوں کی سوچ سے کافی دور رکھا ہوا تھا۔ پاکستان کی جانب سے اپنے دوست ملک چین کی مدد سے لگائی جانیوالی شدید ضرب نے آپریشن بنیان مرصّوص شروع ہونے کے چند گھنٹوں میں بھارتی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس فوجی کشیدگی سے الرجک امریکی صدر ٹرمپ ، نائب صدر جے ڈی وانس ، اور سکریٹری خارجہ امور مارکو روبیو نے
درمیان میں کود کر دونوں ملکوں کو فائر بندی پر رضامند کیا۔ اس پس منظر میں پاکستان کی فوجی اور سفارتی برتری اور پاکستان کے سرکاری وغیرہ سرکاری میڈیا اور پاکستانی قوم کے پرامن زمانے سے زیادہ جنگ کے دوران پرامن و متحد رہنا واضح کرتا ہے کہ پاکستان کی صرف ایک دن میں چند گھنٹوں کی مربوط اور مضبوط فوجی کارروائی نے پاکستان کو بین الاقوامی طور پر مضبوط اقوام میں دوبارہ لا کھڑا کیا ہے۔ اگرچہ ابھی اس کے معاشی اثرات کا پاکستان کی معیشت پر سامنے آنا باقی ہے لیکن اصل بات جو حکومت پاکستان کو بہت ہی زیادہ سنجیدگی سے لینا چاہیے وہ اس تمام کشیدگی کا سیاسی پہلو ہے۔ آج اس قومی ایمرجنسی کے وقت میں فوری طور پر طے ہو گیا ہے کہ پاکستان اور چین آہنی دوست ہیں،
طے ہو گیا ہے کہ چینی اسلحہ اور فوجی ساز و سامان مغرب اور امریکہ سے کہیں اعلی درجے کا ہے، طے ہو گیا کہ پاکستان کی فضائیہ دنیا کی سب سے اعلیٰ تربیت یافتہ فورس ہے،
طے ہو گیا ہے کہ تمام کمزوریوں کے باوجود پاکستان پاکستان ہے، طے ہو گیا ہے کہ پاکستان کا سفارت کاری کا شعبہ بردبار، سمجھدار اور کسی بھی صورت ہندوستان سے کمزور نہیں ہے اور طے ہو گیا ہے کہ پاکستان کا میڈیا کچھ کمزوریوں کے باوجود سنجیدہ اور حقیقت پر مبنی رپورٹنگ ایسے مشکل حالات میں بھی کر سکتا ہے، طے ہو گیا کہ معاشی مشکلات کے باوجود قوم ایک ہے۔ لیکن اگر کچھ طے نہیں ہوتا نظر آرہا ہے تو وہ اس کشیدگی کے سیاسی مضمرات اور اثرات ہیں۔ ابھی تک اس بات کا تعین نہیں ہو سکا کہ سیز فائر کو کہاں تک لے جایا جا سکتا ہے؟ کوئی ایک دہشتگردی کا واقعہ دونوں ملکوں کو بدترین خونی لڑائی میں جھونک سکتا ہے۔ ابھی یہ بات صرف امریکہ کے سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو ، پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف ، وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے ہی آئی ہے کہ اس سیز فائر کے بعد ہندوستان کیساتھ پاکستان کی کسی غیر جانبدار ملک میں تمام اختلافی معاملات پر بات چیت ہو سکتی ہے۔ لیکن انڈیا کی خارجہ وزارت نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے اگر لڑائی رک گئی ہے تو اس کا مقصد بات چیت ہے۔ ابھی اس لڑائی کے سب سے چھپے ہوئے پہلو یعنی سندھ طاس معاہدے کو ہندوستان کی جانب سے معطل کئے جانے اور اس تعّطلی کو ختم کرنے کی کوئی صورت یا شکل سامنے نہیں آئی ہے۔ ہندوستان کے وزیراعظم نریندرا
مودی کے 2016ء کے بعد کے تمام بیانات جو انڈس واٹر ٹریٹی کے بارے میں ہیں یہ بات بالکل واضح کرتے ہیں کہ ہندوستان اس معاہدے کو ہر صورت ختم کرنا چاہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ سیزفائر جس کیلئے ہندوستان کے محکمہ خارجہ نے”سیز فائر یا جنگ بندی”کا لفظ ابھی تک استعمال نہیں کیا ہے بلکہ لڑائی کے رکنے کا لفظ استعمال کیا ہے، کسی بھی وقت ٹوٹ جائیگا۔ یہ سیز فائر کسی بڑے طوفان کے آنے سے پہلے چھا جانیوالی خاموشی کی سی صورتحال کا غماز ہے۔ پاکستان کسی بھی صورت یہ نہیں چاہے گا کہ انڈس واٹر ٹریٹی کو ہندوستان یکطرفہ طور پہ توڑ دے یا اس کے تحت پاکستان کیخلاف دریائی پانی کی دہشتگردی کرتا رہے۔ ہندوستان اس تمام 22 اپریل و ما بعد کی صورتحال کو سیاسی طور پر انڈس واٹر ٹریٹی کو ختم کرنے کیلئے استعمال کر نا چاہتا ہے۔ وہ سندھ طاس معاہدے کا از سر نو جائزہ لینے کے نام پر سیاسی طور پر پاکستان کیخلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے سیز فائر یا جنگ بندی قائم ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ 1949ء پاکستان انڈیا جنگ بندی معاہدہ اقوام متحدہ، تاشقند معاہدہ 1966ء روس، رن آف کچھ بین الاقوامی ثالثی 1968ئ، 2002ء میں محازآرائی کو کنٹرول کرنے میں امریکی کردار، شملہ معاہدے 1972ء کے دستخط کرانے میں روس اور امریکہ کی جانب سے دباؤ۔ یہ تمام چند مثالیں ہیں کہ انڈیا اورپاکستان اپنے معاملات کو کسی بھی صورت نہیں سنبھال سکتے۔ آج اس انڈیا پاکستان محاز آرائی کو ختم کرانے میں امریکہ، سعودی عرب، یو اے ای، قطر، ایران، آذربائیجان ،برطانیہ و چائنہ اور دیگر دوست ملکوں کی کوششیں اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ اگر انڈس واٹر ٹریٹی پر 10 مئی کا یہ سیز فائر ختم ہو جاتا ہے تو ان قوتوں کو ایک بار پھر آگے آنا پڑے گا اور پاکستان اور انڈیا کو مذاکرات کی ٹیبل پر آمنے سامنے بٹھانا ہوگا۔
