تینوں مسلح افواج کے نمائندوں کی مشترکہ پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے پاک بھارت تنازعے کی بنیاد کی یہ کہہ کر ٹھوس نشاندہی کی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ تصادم اور کشیدگی نے ایک بار پھر سے مسئلہ کشمیر کو فلیش پوائنٹ بنا دیا ہے جو کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی اور سنگین مسئلہ ہے اور جب تک یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل نہیں ہوتا، اس خطے میں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔ یہ پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام کے درمیان ایک بیرونی مسئلہ ہے لیکن بھارت آبادی کا تناسب تبدیل کرکے اور قانونی حیثیت میں تبدیلی لا کر اسے داخلی معاملہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی وعدوں کی خلاف ورزی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اس کشیدگی ہی کا حاصل ہے کہ اس سے نہ صرف مسئلہ کشمیر ایک مرتبہ پھر دنیا کے سامنے اجاگر ہوا اور نوبت یہاں تک آگئی کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس تنازعے میں دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کی بھی پیشکش کی گئی جبکہ اس سے قبل ہر فورم پر مسئلہ کشمیر کو دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تنازعہ ہی گردانا جاتا رہا ہے گو کہ اس وقت امن کی بحالی اور استحکام ہی اولین ترجیح ہونا فطری امر ہے تاہم اس بنیاد کو فراموش نہیں کیا جا سکتا جس کے باعث دو ایٹمی طاقتوں کا ٹکرائو ہوا جنگ کا نتیجہ سب کے سامنے ہے اور کامیابیوں کے دعوئوں او رناکامی کی صورتحال دونوں سے رفتہ رفتہ ہی پردہ ہٹے گا البتہ ایک بات طے ہے کہ پاکستان نے بھارت کو دھول چٹا دی یہ صرف پاکستان کا دعویٰ نہیں بلکہ عالمی میڈیا کا بھی اس سے اتفاق ہے ہار اور جیت سے قطع نظر دو ہمسایہ ملکوں میں جب تک بنیادی وجہ نزاع موجود ہے امن مستقل طور پر خطرے میں رہے گا اس لئے ایک قدم آگے بڑھ کر اب کشمیر کے تنازعے کو موضوع بحث لانا ہی پڑے گا۔خود وزیراعلی مقبوضہ کشمیر عمر عبداللہ یہ کہنے پرمجبور ہو گئے کہ ہم ایسی جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں کا ہم نے سوچا نہیں تھا، سب کچھ تبدیل ہوگیا، پاکستان مسئلہ کشمیر اٹھانے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ پاکستان کی خواہش کے مطابق امریکا بھی مسئلہ کشمیر میں کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوگیا ہے وزیراعلی مقبوضہ کشمیر نے کہا کہ پاک – بھارت جنگ کی وجہ سے بہت سی چیزیں بدل چکی ہیں لیکن اگر کچھ نہیں بدلا تو وہ پاکستان کا مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھانے کا منصوبہ ہے، پہلگام واقعے کے متاثرین کو انصاف نہیں ملا، لیکن پاکستان کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھانے میں کامیاب ہوگیا۔کشمیر کے منصفانہ اور عدم تشدد کے حل کے لیے بلیو پرنٹ موجود ہیں، جیسا کہ مشرف دور کا فارمولا۔ یہ یا کوئی اور قابل قبول تجویز، عوامی طور پر یا بیک چینل کے ذریعے،کوئی فار مولہ وضع ہوسکتا ہے اگرچہ دونوں طرف سے اس کی مخالفت ہوگی خاص طور پر بھارت کو امن مذاکرات پربہت اعتراض ہو گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان، بھارت اور کشمیریوں کے لیے قابل قبول حل ہی جنوبی ایشیا میں طویل مدتی امن کی واحد امید ہے۔اگر بھارت مقبوضہ کشمیر میں بربریت اور پرتشدد ہتھکنڈوں کا استعمال جاری رکھتا ہے تو خطے کا امن اسی طرح دائو پر رہے گا اور عوام میں عدم اطمینان برقرار رہے گا۔ تنازعہ کے تمام فریقوں کو ریاستی حکمت عملی اور وژن کی ضرورت ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ تصادم کا راستہ بقائے باہمی اور امن کی خاطر ترک کیا جائے۔ایک بار امن بحال ہو جانے کے بعد، دونوں ریاستیں لاینحل مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں وقت ضائع کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتیں جو جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کا سب سے بڑی وجہ ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ بھارت امریکی ثالثی کو قبول کرنے میں کس حد تک آمادگی کا اظہار کرتا ہے لیکن احتراز بھی آسان نہ ہوگا واشنگٹن کی پیشکش کو مسترد کرنا نئی دہلی کے لیے مشکل ہو سکتا ہے۔تاہم اگر غیر ملکی مداخلت کافی ہوتی یا پھر بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کا پاس ہوتا یا وہ کسسی کی ثالثی تسلیم کرتا توکشمیر کا تنازعہ تقریبا آٹھ دہائیوں سے جاری نہ رہتا۔ کشمیر پر بڑے فیصلے پاکستان اور بھارت ہی کر سکتے ہیں۔ پاکستان نے بارہا کشمیر کا مذاکراتی تصفیہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ دوسری طرف بھارت نے انتہائی سختی کا مظاہرہ کیا ہے۔2019ء میں بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر کی محدود خود مختاری کو سلب کرنے کا ناجائز اقدام بی جے پی حکومت کی اس تنازعہ کے منصفانہ حل کو روکنے کی کوشش کی سب سے بڑی مثال ہے۔لیکن اب وقت آگیا ہے کہ بھارت اس امر کا سنجیدگی سے احساس کرے کہ مسئلہ کشمیر کاحل ناگزیر ہے اس سے صرف نظر کی مزید گنجائش نہیں۔
