مذاکرات کا محور کشمیر

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اگر مذاکرات ہوئے تو بھارت سے کشمیر ، دہشت گردی اور پانی سے متعلق بات ہوگی ۔ یہ تین ایسے معاملات ہیں جو پچھلے 76 سال سے ان کی تاریخ ہے، ان تینوں معاملات پر بحث ہونی چاہئے۔ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر بات کرکے ایک اور پیش رفت کی ہے، ٹرمپ نے کہا کہ کشمیر کا معاملہ بھی زیر بحث آنا چاہیے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ساری جنگیں کشمیر پر لڑی گئی ہیںحالیہ جنگ بھی کشمیر ہی کے حوالے سے ہی تھا پانی کا مسئلہ 1960کے معاہدے میں سیٹل ہے، اسے معطل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی ا ستصواب رائے کی قراردادوں پر اس قدر گرد پڑ چکی تھی کہ سارا معاملہ ہی دھول کی ایک ایسی دبیز تہہ میں دب گیا تھا جسے صاف کرکے ان قراردادوں کے تقاضوں کو پورا کرنے کی امید ہی دم توڑ چکی تھی تنازعہ اور کشیدگی کے باوجود فریقین معاملہ اس حوالے سے اپنی اپنی پوزیشن ہی پر کھڑے رہنے کا عملی اظہار کر رہے تھے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ایسی انگڑائی لی جس سے برسوں سے فراموشی کے خطرے سے دو چار مسئلہ کشمیر دوبارہ اجاگر ہوا۔پاک بھارت دوطرفہ تعلقات اس وقت مزید گراوٹ کا شکار ہو گئے جب5 اگست 2019 کو مودی حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل370کو ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کو مکمل طور پر بھارتی یونین میں ضم کردیا اور جموں و کشمیر سے باہر کے لوگوں کو وہاں آباد ہونے اور جائداد خریدنے کی اجازت دے دی۔ مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو ایک ”ریاست سے کم کرکے دو”مرکزی علاقہ جات میں تبدیل کردیا گیا۔ بھارت کی آئینی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ تھاکہ کسی ”ریاست کو واپس ”یونین ٹیریٹریکی نچلی حیثیت پر دھکیل دیا گیا۔ پاکستان نے ان اقدامات کو مسترد کردیا اور سفارتی سطح پر شدید احتجاج کیا۔ دونوں ملکوں نے اپنے ہائی کمشنروں کو واپس بلا کر اپنے سفارتی تعلقات کو نچلی سطح پر لے گئے۔پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے امکانات کبھی اتنے ابہام کا شکار نہیں ہوئے جتنے نریندرمودی کے بھارتی وزیر اعظم بننے کے بعد ہوئے ہیںچونکہ ان کی حکومت دائیں بازو کی سخت گیر سیاست اور ہندو انتہا پسند گروپس کی نمائندہ جماعت کی شناخت رکھتی ہے جس نے تجارت اور تمام دوطرفہ متنازع امور جن میں مقبوضہ کشمیرسیاچن سرکریک اور سندھ طاس معاہدے کے تناظرمیں دریائی پانی کی تقسیم شامل ہیںپربات چیت کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔مودی کی ایک اور حماقت سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی تھی جسے پاکستان نے اعلان جنگ سے تعبیر کیا اور کشیدگی بڑھتے بڑھتے کامیاب آپریشن بنیاں مرصوص پر منتج ہوا جس سے حالات میں ایسی ڈرامائی تبدیلی آئی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ہنگامی مداخلت کرنا پڑی پاکستان کی جانب سے شملہ معاہدے کے خاتمے کا بھی اعلان کیا گیا مگر اس کے بعد اس پر زیادہ زور نہیں دیا گیا جس سے قطع نظر دونوں ملکوں کے درمیان اب متوقع مذاکرات کے بنیادی نکات میں سرفہرست کشمیرہی ہو گا جہاں تک شملہ معاہدے کی بات ہے بھارت کشمیر کے معاملے میں اپنے شملہ معاہدہ والے پرانے موقف میں بھی نرمی کا اظہار غیر معمولی بات ہے ویسے بھی شملہ معاہدے میں چین کے بھی فریق بننے کے بعد یہ معاہدہ بہت حد تک غیر موثر ہی سمجھا جانے لگا ہے سندھ طاس معاہدہ بھی ضامینین کی ذمہ داری ہے اور بھارت اب اس حوالے سے اپنے اعلان پر قائم رہنے کی پوزیشن میں نہیں اسے لامحالہ پیچھے ہٹنا پڑے گا جس کے بعد بالاخر مسئلہ کشمیر کا دیرینہ اور سنگین تنازعہ ہی مذاکراتی عمل کا محور ہونا ہے اب تک کی پیشرفت سے یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ دونوں ممالک تنائو میں کمی لانے کے لئے طویل عرصے سے حل طلب مسائل کے حل کے لئے نہ صرف مذاکرات کا سلسلہ بحال کریں گے بلکہ اس میں پیشرفت کی بھی توقع ہے ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جہاں مذاکرات اور ماحول کو بہتر بنانے کی بات آتی ہے وہاں دونوں ملکوں میں ایسے عناصر کی موجودگی ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آتا ہے جو انتہا پسندانہ خیالات رکھتے ہیں ان سے بھی اب اندرونی طور پر مکالمہ کی ضرورت ہے تاکہ مذاکرات کا ماحول بنے اگر پاکستان اور بھارت ان امور پر پیشرفت کر سکیں تو وہ جنوبی ایشیا میں دہشت گردی اور کشمیر کے مستقبل سمیت تمام متنازع اور پیچیدہ مسائل پر بات چیت کا سلسلہ بحال کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔بھارت اور پاکستان کے مابین 2004 اور2007 میں ہونے والے مکالمے کی طرز پر بات چیت کی جاسکتی ہے ۔ پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے باہمی قابلِ قبول حل کے حل کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے جو کشمیریوں کیلئے بھی قابلِ قبول ہو۔دونوں ملکوں کے درمیان عالمی برادری کی ثالثی اور ان کی مدد ہی فریقین کو کسی قابل قبول حل تک پہنچا سکتے ہیں ایسے میں دونوں ملکوں کے طرز عمل کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کوبھی اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہو گی۔

مزید پڑھیں:  کہیں لوڈ شیڈنگ کہیں ہائی وولٹیج