پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ عام آدمی تو قدم قدر پر ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہے اور ماچس کی ڈبیہ سے لے کر ضروریات زندگی کے ہر شعبے میں اس پر ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کا بوجھ لادا جاتا ہے اس پر بھی جب ٹیکس دہندگان کے لئے کوئی مراعات دی جاتی ہیں تو صرف ان افراد کو نوازا جاتا ہے جو ٹیکس کی زبان میں فائلر کہلاتے ہیں تنخواہ دار طبقے خواہ ان کا تعلق سرکاری محکموں سے ہو ‘ نیم سرکاری ‘ کارپوریشنز یا پھر نجی اداروں کے ساتھ ان کا سمبندھ ہو ان سے ایٹ سورس یعنی ادارے کی سطح پر ماہ بہ ماہ جو بھی ٹیکس بنتا ہے باقاعدگی کے ساتھ اس کی کٹوتی ہوتی ہے اور اسے قومی خزانے میں جمع کر دیا جاتا ہے مزید یہ کہ سرکاری ملازمین کو ہر سال اپنی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی تفصیل پر مبنی ایک فارم بھر کر اپنے اثاثوں کی ڈکلیئریشن دینی پڑتی ہے مگر اس کے برعکس ارکان پارلیمنٹ کو اپنے اثاثے ظاہر کرنے کا کہا جائے تو سیاسی جماعتیں اس قسم کے احکامات پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہوتیں پاکستان پیپلز پارٹی نے ارکان اسمبلی کے ا ثاثوں کی اشاعت کی مخالفت کرتے ہوئے الیکشن ایکٹ میں ترمیم پیش کردی ترمیم میں کہا گیا ہے کہ مالیاتی گوشواروں کی حد سے زیادہ اشاعت سے ارکان پارلیمان اور خاندانوں کی راز داری اور سیکورٹی کو نقصان پہنچ سکتا ہے امر واقعہ یہ ہے کہ ملک میں سرکاری اداروں اور پبلک نمائندوں کے حوالے سے ان کے بارے میں تمام تر معلومات سے جانکاری کے حوالے سے قانون موجود ہونے اور کسی بھی شخص کی جانب سے استفسار پر یہ معلومات فراہم کرنے پر کوئی پابندی نہ ہونے کے بعد”ذاتی سیکورٹی اور رازداری” کے نام پر ارکان پارلیمان کے اثاثوں کو پوشیدہ رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے تاہم اگر یہ بہت ضروری ہو تو کم از کم انتخابات سے پہلے تمام امیدواروں کے گوشواروں کی تفصیل اور متعلقہ اسمبلی ‘ سینیٹ کی مدت ختم ہونے کے بعد تو ممبروں کے بارے میں گوشوارے سامنے لانے ضروری ہیں تاکہ عوام ان کے بارے میں اصل حقائق جان سکیں۔
