شہری زندگی کو آسان بنانے کے لئے سرکاری سطح پر اقدام اٹھائے جاتے ہیں مگر وطن عزیز میں اس کے برعکس صورتحال کا عوام کو سامنا رہتا ہے خصوصاً بڑے اور مشہور بازاروں میں جہاں عوام کی بہت بڑی تعداد ضرورت کی چیزیں خریدنے کے لئے آتی ہے ان بازاروں پر مختلف النوع قسم کی مافیاز کا قبضہ رہتا ہے مثلاً پشاور کے کئی اہم بازاروں میں جن میں خیبر بازار ‘ قصہ خوانی ‘ پشاور میں صدر روڈ اور دیگر بازاروں ‘ یونیورسٹی روڈ وغیرہ وغیرہ کا جائزہ لیا جائے تو نہ صرف ان بازاروں میں تجاوزات سے شہریوں کے لئے مشکلات کی صورتحال اس قدر تکلیف دہ ہے کہ ان تمام بازاروں میں پیدل چلنے والوں کے لئے تل دھرنے کی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے ایک عذاب کا سا سماں رہتا ہے ایک جانب ان بازاروں میں زیادہ تر ا لیکٹرانک کی اشیاء دکانوں سے باہر سڑکوں تک پر سجا کر راستے بند کئے جاتے ہیں اور جہاں تھوڑی بہت گنجائش ہوتی ہے وہاں تہہ بازاری متعلقہ دکانداروں کو بھاری معاوضے ادا کرکے قابض ہوتے یہں ان دکانوں کے باہر سڑک پر مختلف اشیاء کے خریداروں کی”سہولت” کے لئے سوزوکیوں اور دیگر سامان ڈھونے والی ٹرانسپورٹ کا قبضہ رہتا ہے جبکہ کوئی شہری اگر غلطی سے اپنی گاڑی میں سودا سلف خریدنے کے لئے ان بازاروں کا رخ کرے تو اسے اس مافیا کی ملی بھگت سے گاڑی پارکنگ کی جگہ تک نہیں ملتی دوسرا مافیا وہ ہے جو ہسپتالوں میں گاڑیوں ‘ موٹر سائیکل سواروں کو پارکنگ کے نام پر لوٹنے میں آزاد ہے اس پر سوشل میڈیا پر اٹھایا جانے والا یہ سوال بہت وائرل ہے کہ کیا ہسپتالوں میں لوگ سیر تفریح کے لئے آتے ہیں جو ان سے پارکنگ فیس وصول کی جاتی ہے ؟ اسی طرح دیگر بازاروں میں بھی کارپارکنگ کے نام پر عوام کو جس طرح لوٹ کھسوٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پارکنگ کا ٹھیکہ دار مبینہ طور پر ان کارندوں کے ذریعے زبردستی سو روپے تک وصول کرتا ہے حالانکہ پرچیوں پر درج رقم کہیں کم ہوتی ہے لیکن یہ سب”دھندا” ملی بھگت کے بغیر نہیں ہو سکتا جبکہ ہر طرف شکار عوام ہی رہتے ہیں کیا حکومت اس ساری صورتحال کو لگام ڈالنے کی کوئی تدبیر نہیں کر سکتی؟ آخر عوام کو ہر قدم پر لوٹنے کا یہ سلسلہ کب ختم ہوگا؟
