اسلام کی آئیڈیالوجی توحید ہے، اور اسلام کی تمام تعلیمات دراصل توحید کے بنیادی تصور پر مبنی ہیں ۔ اسلام کی دوسری تعلیم امن ہے۔ امن کی اہمیت عملی ضرورت کے اعتبار سے ہے۔ اسلام کا اصل مقصد اصلاح انسان اور انسانیت فلاح وبہبود ہے، ایسا مقصد صرف امن کے حالات میں حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ امن معتدل حالات کا ذریعہ ہے ۔ اور معتدل حالات عمل کو ممکن بنا دیتے ہیں۔اسلامی قانونِ جنگ کا ایک حسین اور خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے دورانِ جنگ بے قصور ، نہتے اور کمزور لوگوں کے قتل کی سختی سے ممانعت کی ہے ، عملا جن لوگوں نے جنگ میں حصہ لیا ہے یا جنھوں نے مشوروں اور خدمات کے ذریعے ان کو مدد پہنچائی ہے، یہی لوگ قتل کے مستحق ہوں گے ، جبکہ بچوں ، عورتوں ، بوڑھوں اور خلوت نشیں عابدوں ، زاہدوں سے ہرگز تعرض نہ کیا جاتا ہے ، دورانِ جنگ بے قصور لوگوں کے قتل کو تو در کنار ، اسلام نے سرسبز وشاداب کھیتوں ، پھل دار درختوں اورباغات کو بھی نقصان پہنچانے سے روکا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اِس جنگ کی نوعیت کو سمجھ لیا ہے؟ کیا ہم جان پائے ہیں کہ دہشت گردی کی یہ نئی لہر صرف بم اور میزائلوں سے نہیں، بلکہ جھوٹے بیانیوں، ڈیپ فیک ویڈیوز اور نفسیاتی حربوں سے بھی لڑی جا رہی ہے؟دنیا دیکھتے ہی دیکھتے ڈیجیٹل ورلڈ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ویسے توسوشل میڈیا کا بنیادی مقصد ہی مختصر وقت میں زیادہ سے زیادہ افراد تک خیالات اور نظریات کی رسائی تھی، جس سے لوگوں کی اکثریت نے بھر پور استفادہ بھی کیا ۔ اسی لیے سوشل میڈیا کی اہمیت میں روز بروز اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے بلکہ اب تو یہ عالم ہے کہ کسی بھی واقعے کی خبر،ویڈیو یا تصویر منٹوں نہیں، سیکنڈوں میں لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے اورمنفی یا مثبت دونوں ہی طرح اثرانداز ہونے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔یعنی اب لوگ معلومات اور اطلاعات کے صارف اور پروڈیوسر دونوں ہی بن چکے ہیں۔ آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ کے ولیم ڈٹن نے سوشل میڈیا کو ریاست کا پانچواں ستون قرار دیتے ہوئے کہاتھا کہ ہم ایسی طاقت ور آوازوں اور نیٹ ورکس کو ابھرتے دیکھ رہے ہیں ، جو روایتی میڈیا کے برعکس آزادانہ طور پر کام کرسکیں گے.جنگ مسئلوں کا حل نہیں ہوتی،یہ ریئلائزیش مودی کو بھی ہوجانی چاہیے۔22 اپریل سے 10 مئی تک کے معرکہ حق پاکستان کی اتنی بڑی فتح ہے کہ دنیا کا میکانزم تبدیل ہو گیا۔بھارت یہ دعویدار تھا کہ وہ دنیا کی چوتھی بڑی آرمی ہے لیکن پاکستان نے دنیا کی چوتھی بڑی آرمی کو ہرا کر آپنا مقام چوتھی بڑی آرمی پہ لکھ لیا ہے۔یاد رہے جنگ کسی بھی خطے میں ہو،چاہے مشرق ہو یا مغرب ہو اس کا نقصان عالمی امن کو ہوتا ہے۔جنگ کی تباہ کاریوں سے صرف ایک ملک یا خطہ متاثر نہیں ہوتا بلکہ اس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوتے ہیں۔چاہے کھیت آپنے ہوں یا دوسروں کے،ان کی بربادی کا نتیجہ ہر حال میں بھوک اور فاقوں کی صورت میں نکلتا ہے۔جنگ کے دوران جو بھی تباہی ہوتی ہے اس کا اثر صرف فوج تک محدود نہیں رہتا بلکہ پوری انسانی تہذیب اور معاشرتی ڈھانچے پر ہوتا ہے۔ترقی اور تعمیر کی روح کو زخم پہنچتا ہے اور انسانی فلاح وبہبود کا راستہ مسدود ہوجاتا ہے۔
بقول شاعر!
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
اسلام میں جنگ کوئی مستقل اصول نہیں ہے۔اسلام میں جنگ قانون ضرورت کے تحت پیش آنے والا ایک وقتی عمل ہے نہ کہ کسی آبدی اصول کے تحت کیا جانے والا مستقل عمل۔اللہ تعالی فرماتا ہے! اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہنا کہ فساد نابود ہو جائے اور ملک میں خدا ہی کا دین غالب ہوجائے،اور اگر وہ فساد سے باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں کرنی چاہیئے۔لیکن آج کل دنیا بدل چکی ہے،اب جنگیں صرف سرحدوں پر نہیں لڑی جاتیں بلکہ موبائل فونز اور سوشل میڈیا پر بھی محاذ کھلے ہوئے ہیں جیسے دو ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے ،فیس بک ،یوٹیوب،واٹس ایپ اور ٹوئٹر پر خبریں ویڈیوز اور دعوئوں کی بھر مار ہوجاتی ہے۔ہر کوئی ایک ویڈیو فارورڈ کررہا ہوتا ہے لیکن بہت کم لوگ یہ سوچتے ہیں کہ یہ سچ ہے یا فیک؟ یہ سوال صرف سادہ تجسس کا نہیں بلکہ ذمہ داری کا ہے۔اگر ہم فیک نیوز کا شکار ہوں یا اسے آگے پھیلائیں تو ہم جنگی نفسیات کا ایندھن بن جاتے ہیں۔ڈیپ فیک اور مصنوعی ذہانت (AI)نے جعلی ویڈیو بنانا بہت آسان کردیا ہے۔کسی بھی ویڈیو میں آواز یا چہرہ آسانی سے بدل کر نیا بیان تیار کیا جاسکتا ہے ۔بہت سی ویڈیوز پرانی ہوتی ہیں لیکن نئے واقعات سے جوڑ دی جاتی ہیں۔ اکثر وبیشتر سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر شیئر کی جاتی ہیں جو کسی اور ملک یا پرانے واقعے سے لی گئی ہوتی ہیں لیکن حالیہ حملے یا واقعے کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔جنگی حالات میں افواہیں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں،مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کا سیلاب آتا ہے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر گز کسی کاپی پیسٹ تحریر بیانیے پر اعتبار نہ کریں۔یہاں ہر دوسرا بندہ دفاعی تجزیہ نگار بن گیا ہے،ہر شخص جنگی حکمتِ عملی ،اسلحے ڈرون اور جنگی جہازوں کا ماہر بن گیا ہے۔چٹخارے دار تجزیے،ان پر تبصرے اور بس۔خدارا! اپنی فوج پر بھروسہ کریں،انہوں نے ہی لڑنا ہے،وہی جنگی تقاضوں اور ٹیکنالوجی کو جانتے ہیں ورنہ جھڑپوں میں کوئی فریق محفوظ نہیں رہتا،دونوں طرف جانی ومالی نقصان ہوتا ہے۔یاد رہے! وارفیئر ٹیکنالوجی میں چائنہ کے اشتراک سے ہم بہت بہتر ہیں،لڑنے پر آئے تو پاکستان کے پاس بہت کچھ ایسا ہے جو بھارت اور عالمی برادری کے لیے سچ میں سرپرائز ہو گا۔لہٰذا پاک بھارت کشیدگی میں اپنی فورسز پر اعتبار رکھیں اور دعا کریں کہ جھڑپیں بڑھتے بڑھتے جنگ کی شکل اختیار نہ کریں بھارت کو برابر سے بھی زیادہ کا جواب مل چکا۔
