پاکستان اور بھارت کی جنگ کے حالیہ راونڈ میں اسرائیل اور بھارت کے برسوں کے تعلقات میں مشترکہ دشمن ،مشترکہ خطرے اور مشترکہ مظلومیت کی گرم جوشی پاکستان کے طول وعرض میں گرنے والے اسرائیل ساختہ ڈرونز کی عملی شکل میں صاف دکھائی دی۔جنگ بند ہوچکی ہے مگر بھارتی دانشوروں کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ اس بار مغرب اور عرب دنیا میں ان کا مظلومیت کارڈ کارگر کیوں نہ ہو سکا؟ماضی میں جب بھی بھارت میں کوئی پر تشدد حملہ ہوا بھارت مسلم شدت پسندی کا شور مچاتا ہوا مغربی ملکوں اور مغرب کے زیر اثر عالمی اداروں میں دہائیاں دیتا تھا ۔سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ اور اسرائیل کو احساس دلایا جاتا تھا کہ جس ذہنیت نے نائن الیون کیا اور جو ذہنیت تل ابیب کے عوامی مقامات پر فدائی حملے کرتی ہے وہی بھارت پر حملہ آور ہے ۔مغربی میڈیا فوراََ یہ موقف قبول کرکے اس کی جگالی شروع کر دیتا ۔یوں بھارت کی مظلومیت اور پاکستان کے ظالم ہونے کا ایک تاثر پوری طرح پھیل کر ایک مخصوص ذہنیت میں ڈھل کر رہ جاتا ۔اس بار پہلگام حملے کے بعد ہی یہ کارڈ غیر موثر اور ناکارہ سا ہو کر رہ گیا ۔کچھ وقت بدل گیا تھا کچھ وقت کے تقاضے کچھ سوشل میڈیا کے عام ہونے سے عوامی شعورکی سطح بلند ہوگئی تھی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کی معاشی اور سیاسی ضرورتیں بھی بدل گئی تھیں ۔ماضی کے واقعات اور موجودہ حالات میں ذہنوں کو بدلنے والا سب سے بڑا واقعہ یوکرین کی جنگ تھی جس میں بھارت نے مغرب کی ساری توقعات پر پانی پھیر دیا تھا ۔مغرب نے بھارت کو چین کے مقابلے کے لئے تیار کیا تھا ان کا خیال تھا کہ جب بھی مغرب کو بھارت کے سیاسی اور تزویراتی ساتھ اور ہاتھ کی ضرورت پڑے گی بھارت آگے آئے گا مگر یوکرین کی جنگ میں جو ہوا اس کے قطعی برعکس تھا ۔بھارت نے مغربی ملکوں کو ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے اپنے مسائل ہیں ہم ایک خالص یورپی مسئلے کو کیونکر اپنا مسئلہ بنا سکتے ہیں۔بھارت کے اس رویے نے مغرب کو اس سے مایوس کرنے میں اہم کر دار ادا کیا تھا ۔اس عرصے میں دوسرا اہم واقعہ غزہ کی جنگ تھی ۔اس جنگ میں انسانیت کا دامن جس طرح تار تار ہوا اس نے آکسفورڈ اور ہاروڈ کے تعلیمی اداروں اور ہالی وڈ کی دنیا کے ستاروں تک کو مضطرب کر دیا ۔بچوں کے بے رحمانہ قتل عام نے تو فرعون کے دور کو ایک بار پھر عملی شکل میں دکھا دیا ۔سفاکی کے اس کھیل میں جس ملک نے حیلوں بہانوں سے اسرائیل کا ساتھ دیا وہ بھارت تھا اور جس ملک کی سخت گیر رائے عامہ نے مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونے کی بجائے اسرائیل کی حمایت میں مظاہرے کئے وہ بیرونی دنیا میں ہندوتوا ذہنیت کے زیر اثر کارکن تھے۔اب بھارت کی ایک دانشور خاتون نے خود یہ کھوج لگانے کی کوشش کی ہے کہ پہلگام واقعے کے بعد بھارت کو ماضی کی طرح بیرونی حمایت کیوں حاصل نہ ہو سکی ۔ایکس پر ایک بھارتی خاتون کا کہنا تھا کہ ”بھارت کو حمایت نہ ملنے کی وجہ یہ تھی کہ اس نے غزہ میں اسرائیل کا ساتھ دیا ،بھارت کے حکمران یہ سمجھتے رہے کہ ان کی اس حرکت کا نوٹس نہیں لیا جائے گا مگر عالمی رائے عامہ نے اس کانوٹس لے لیا”یوں غزہ کے مظلوموں کی آہ بھارت کو یوں لگی کہ تین دہائیوں بعد عالمی رائے عامہ کی مشین سے اس کا مظلومیت کارڈ کریڈٹ سے خالی کی رپورٹ کے ساتھ واپس آیا۔نہ مغربی میڈیا چیخا کہ سب سے بڑی جمہوریت مسلم شدت پسندی کی زد میں آگئی ہے نہ کسی ملک کے خارجہ ترجمان نے کہا کہ سیکولرازم پر مسلمان حملہ آور ہوئے ہیں ۔اس کا احساس بھارت میں ہی نہیں اسرائیل میں بہت شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے جہاں ”یروشلم پوسٹ” کے ایڈیٹر زویکا کلن نے ایڈیٹورل نوٹ میں بھارت کے ساتھ ہونے والے سلوک پر تاسف کا کھل کر اظہار کیا ۔بظاہر تو یہ تحریر پہلگام واقعے کے بعد بھارت کو عالمی عوامی سطح پر نہ ملنے والی ہمدردی اور پزیرائی پر ہے مگر حقیقت مگر یہ جنگ کے دوران شائع ہوا اس لئے جنگ کے بعد عالمی سطح پر بھارت کے مظلوم بن کر اُبھرنے میں ناکامی کا دکھ بھی اس میں نمایاں ہے۔مسٹر زیویکانے تحریر کا آغاز ہی افسانوی انداز سے یوں کیا ہے ۔اپنی آنکھیں لمحہ بھر کو بند کریں اور ہاروڈ (یونیورسٹی) کا تصور کریں ۔اس کے ساتھ ہی پہلگام میں ہونے والے قتل عام کو سوچیں تو آپ کو پروفیسر پٹیشنز سائن کرتے نظرآئیں گے ،طالب علم کتبے اُٹھائے دکھائی دیں گے جن پر لکھا ہوگا ”جسٹس فارکشمیر” سٹاپ پاکستانی ٹیررازم”۔پہلگام سے ہیگ تک لوگ بولتے ہوئے نظر آئیں گے ۔ مغربی دارالحکومت مذمتی بیانات جاری کررہے ہوں گے۔اقوام متحدہ ہنگامی اجلاس منعقد کر رہا ہوگا۔میڈیا اس کو دہشت گردانہ کارروائی قرار دے رہا ہوگالیکن یہ سب کچھ حقیقت نہیں کیونکہ اس بار مظلوم بھارتی ہیں اور دنیا خاموش ہے۔نہ کوئی ٹویٹ اور نہ کوئی ہیش ٹیگ نہ یکجہتی کے مظاہرے اور نہ غم وغصہ۔جس کے بعد اسرائیلی صحافی لکھتا ہے کہ مگر ایسی آوازیں آپ صرف تب سنتے ہیں جب اسرائیل اپنا حق دفاع استعمال کرتا ہے۔دنیا کے تمام کیمپسز جو اسرائیل کے خلاف احتجاجی زونز میں تبدیل ہوئے تھے پہلگام حملے کے روز پرسکون رہے۔مغرب نے اسی طرح کی خاموشی اس وقت بھی اختیار کی تھی جب حماس نے اسرائیل پرحملہ کیا تھا ۔انڈین فوج نے دہشت گردوں پر ٹارگٹڈ حملے کئے اس کہانی میں بھارت اسرائیل ہے اور پاکستان حماس کی طرح دہشت گردی کی کاروائیوں کی تردید کرتا ہے۔آگے چل کر وہ اسرائیل پر بھارت کے احسانات گنواتے ہوئے لکھتے ہیں ۔یہ بھارتی ہی تھے جنہوں نے دنیا بھر میں اسرائیل سے یکجہتی کی ریلیاں منعقد کیں اور اسرائیل کو تنہا نہیں رہنے دیا ۔ان مظاہرین نے اسرائیل کے ساتھ ساتھ بھارت کے پرچم بھی لہرائے۔پیغام واضح تھا کہ دونوں کو ایک جیسے حالات کا سامنا ہے۔ایک ہی دشمن ہے۔ایک انڈین کہہ رہا تھا کہ تمھارا دردسر فلسطین ہے تو ہمارا درد سر پاکستان ہے۔بھارت اور اسرائیل میں صرف ٹیکنالوجی اور تجارت کا تبادلہ ہی نہیں ہورہا دونوں اینٹیلیجنس کا تبادلہ اسلحہ کی بڑھوتری اورجدت جمہوری روایات اور میدان جنگ بھی مشترک ہے اس میدان جنگ کا نام ہے ریڈیکل اسلامسٹ ٹیرر۔وہ لکھتے ہیں کہ اسرائیل کی حالیہ جنگ میں بھارت ہمارے ساتھ استقامت اور خاموشی کے ساتھ کھڑا رہا۔اب ہماری باری ہے ۔ہمیں کھل کر بھارت کی حمایت کرنی چاہئے بھارت کے حق دفاع کی حمایت کرنی چاہئے میڈیا کے دوہرے میعار کو بے نقاب کرنا چاہئے ہمیں شور کرنا چاہئے سوشل میڈیا کا استعمال کرنا چاہئے چھبیس بھارتی شہریوں کی مظلومیت کو اُجاگر کرنا چاہئے ۔بھارت اسرائیل کا دفاعی شراکت دار ہے ۔اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔سرحدوں پر حفاظت کے نظام سے ڈرون رے ڈار میزائل ٹیکنالوجی مشترکہ فوجی مشقوں تک دونوں کا یارانہ ہے ۔انسداددہشت گردی سے متعلق معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں ۔ہوم لینڈ اورسائبر سیکورٹی میں تعاون کر رہے ہیں ۔وہ لکھتے ہیں کہ انڈیا نے اسرائیل کی غزہ کے معاملے پر بھرپور حمایت کی۔اقوام متحدہ میں ہمیں سفارتی تنہائی سے بچایا کبھی خاموش رہ کر تو کبھی ووٹنگ سے غیر حاضر رہ کر۔اسرائیل اور بھارت کا صرف سیاست کا تعلق نہیں رہا بلکہ دونوں میں اقدار کا تعلق بھی ہے۔ بیرونی دنیا میں ایک کروڑ ہندواسرائیل کو اپنا شراکت دار سمجھتے ہیں ۔اس لئے اسرائیل کو بھارت کے آئینے میں اپنا ہی چہرہ نظر آتا ہے ۔اس تحریر سے بھارت اور اسرائیل کے تعاون کی دنیا کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اسرائیل کے ساتھ تعلق حقیقت میں عالمی نفرت کی ساجھے داری ہو گیا اور اسی کا اعتراف بھارت کی شہری آزادیوں کی علمبردار خاتون دیفیانت دیوی نے ایکس پر یوں کیا۔عالمی جذبات بھارت کی مخالفت میں ہیںکیونکہ بھارت نے غزہ میں اسرائیل کے جنگی جرائم کی حمایت کی ۔بھارت نے صرف مسلمانوں کی نفرت میںا سرائیل کی حمایت کی ۔بھارتیوں کو یقین نہیں تھا کہ دنیا اس حرکت کا نوٹس لے گی مگر ایسا ہو کر رہا۔
