سندھ طاس معاہدہ’اہم نکتہ

پاکستان نے سندھ طاس معاہدہ معطلی پر بھارت کو باضابطہ خط لکھ دیا۔ ذرائع وزارت آبی وسائل کے مطابق سیکرٹری آبی وسائل کی جانب سے بھارتی ہم منصب کولکھے گئے خط میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔ خط میں لکھا گیا کہ سندھ طاس معاہدے میں یکطرفہ معطلی کی کوئی شق نہیں جبکہ معطلی کے استعمال کئے گئے الفاظ ہی معاہدے میں موجود نہیں ہیں۔ پاکستان سندھ طاس معاہدے کو اپنی اصل شکل میں قائم سمجھتا ہے۔ خط میں واضح کیا گیا کہ سندھ طاس معاہدے میں یکطرفہ چھیڑ چھاڑ کی گنجائش نہیں۔دوسری جانب ورلڈبینک کے صدر اجے بنگا نے بھی کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے میں اسے یکطرفہ معطل کرنے یا ختم کرنے کی کوئی شق نہیں ہے، معاہدے میں تبدیلی یا اسے ختم کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت کا متفق ہونا ضروری ہے۔ امریکی میڈیا کو انٹرویو میں ورلڈ بینک کے صدر اجے بنگا نے کہا کہ بھارت نے تکنیکی طورپر معاہدہ التوا میں ڈالا ہے، معاہدے کے طے شدہ طریقہ کارکی پاسداری ضروری ہے۔ اجے بنگا نے واضح کیا کہ سندھ طاس معاہدے میں عالمی بینک کا کردار ایک سہولت کار کا ہے نا کہ ثالث کا، یہ معاہدہ دو خودمختار ملکوں کے درمیان ہے ان کا کہنا تھا کہ ورلڈ بینک کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعات میں کوئی فیصلہ کرے یا مداخلت کرے۔ اس کا کام صرف یہ ہے کہ جب دونوں فریق درخواست دیں تو غیر جانبدار ماہرین یا ثالثی کے پینل کا تقرر کرے تاکہ اختلافات کو حل کیا جاسکے۔حالیہ کشیدگی میں بھارت جن حالات سے دوچار ہوا اس کے بعد اس امر کا امکان کم ہی ہے کہ بھارت اب ایک ایسے معاہدے سے کنارہ کشی کے اعلان پر قائم رہے جس کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا لیکن دشمن ملک کا کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق عمل بھی بعید نہیں بہرحال پاکستان کو اس معاملے کو عالمی فورم پر حل کرنے کی سعی ہی واحد راستہ ہے ورلڈ بینک کے صدر نے جہاں ایک جانب قانونی حوالے اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے وہاں اس پر عملدرآمد کے حوالے سے عدم مداخلت کا بھی بتایا ہے ایسے میں بھارت کی جانب سے کسی ممکنہ اقدام کے عالمی طور پر حل کا انتظارپاکستان کے لئے قابل برداشت نہ ہو گا شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان اس معاہدے سے انحراف اور پانی کی بندش کو اعلان جنگ تصور کرتا ہے اور عملی طور پر اس کے حالیہ اقدامات بھی اس امر پر دال ہیں کہ پاکستان اپنی زرعی اور معیشت کو کسی قیمت پر بھی بھارت کے ہاتھوں تباہ ہونے کا متحمل نہیں ہو گا ۔ امکان ہے کہ مسئلہ کشمیر سمیت بھارت سے تمام دیرینہ تنازعات اور بھارت کے معاہدوں سے انحراف پر اٹھنے والے معاملات سبھی زیر بحث آئیں گے اور بھارت ہوش کے ناخن لے گا پاکستان کا پانی بند کرکے بھارت کسی طور پر چین کو بھارت کی طرف بہنے والے دریائوں کا رخ موڑنے کا جواز فرہم نہیں کرے گا جو بھارت سے کہیں زیادہ باوسائل اور طاقتور ملک ہے عالمی معاہدوں کی پاسداری ہی جملہ ممالک کی ذمہ داری اور تنازعات سے بچنے کا عمل ہو گا اس سے انحراف خطے کو جنگ کی دلدل میں دھکیل سکتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  پیسکو کا غلط طرز عمل