3 117

یہ رہنمائی کیسے کرینگے؟

فواد چوہدری نے حکومت کی جن کمزوریوں کی جانب اشارہ کیا وہ سب انتہائی اہم باتیں ہیں۔ یہ وہی معاملات ہیں جن کے باعث یہ حکومت اپنے سے وابستہ اُمیدوں پر پوری اُترتی دکھائی نہیں دیتی۔ لوگ پریشان ہیں اور حکومت تقریباً اپنے رویوں سے ان کی پریشانی سے انجان دکھائی دیتی ہے۔ وزیراعظم کی حالیہ تقریر بھی اس امر کی نشاندہی کر رہی ہے کہ حکومت وقت’ عوام کی پریشانیوں سے بے بہرہ ہی رہنا چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اسی طرح شترمرغ کی مانند ریت میں سر دئیے رکھیں اور اپنے آپ کو خود ہی تھپکیاں دیتے رہیں کہ سب اچھا ہے۔ یہ سب اچھا ہے کی گردان بھی کمال ہوا کرتی ہے، ایوب خان کے دور میں اسی سب اچھا ہے کی تکرار کیلئے علیحدہ سے ایک اخبار چھاپا جاتا تھا تاکہ حاکم وقت کے دل کو یہ ٹھیس نہ پہنچے کہ وہ جس نیک نیتی سے معاملات کی درستگی کیلئے کوشاں ہیں وہ کسی صورت اثرپذیر ہی نہیں۔ جے جے کار جاری رہی، حکومت کیخلاف نعرے لگنے لگے اور ایک نیک نیت حکمران کا دل ٹوٹ گیا۔ تاریخ اپنا آپ دہراتی ہے اور وہ لوگ جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے اسی پریشانی کا شکار رہتے ہیں کہ آخر انہیں معاملات کو پورے طور اپنی گرفت میں کیونکر کرنا ہے۔ اس حکومت کیساتھ بھی کچھ ایسے ہی معاملات ہیں اور کچھ ان کے اپنے مزاج کی ریشہ دوانیاں ہیں جو خود ان کے اپنے پیر اکھاڑ دینے میں ممد ومعاون ہیں۔ یہ وہ باکمال لوگ ہیں جنہوں نے کبھی حکومت نہیں کی، اقتدار کے ایوانوں میں کبھی کوئی کامیابی اکیلے اکیلے بھی ان کا مقدر نہیں رہی۔ ان میں سے کسی نے کوئی ایسا کار نامہ سرانجام نہیں دیا جس کے نتیجے میں وہ سمجھتے کہ جس انقلاب کا نعرہ لگا کر وہ حکومت میں آرہے ہیں اس میں وہ یقینا کامیاب ہوں گے۔ ایسے میں’ میں یہ نہیں کہتی کہ وہ کامیاب ہو نہیں سکتے تھے کہ پہلے بھی بس ہارتے ہی رہے تھے۔ کامیابی کیلئے مقدر اور حکمت دونوں کی ہی ضرورت ہوتی ہے اور جہاں نامعلوم علاقوں کا سفر ہو وہاں بادشاہ بھی راستہ دکھانے کو ایک راہنما ساتھ رکھ لیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی کم عقلی کو عقل کل سمجھا اور اسے رہنما کر لیا۔ بیوروکریسی ان کی نظروں میں محض چور ہوگئی حالانکہ ان کے عنان حکومت سنبھالنے کے بعد مسلسل انہیں لوگ مشورہ دیتے رہے کہ دیکھ بھال کر بیوروکریسی میں سے اچھے لوگوں کا انتخاب کریں۔ لوگوں کے بارے میں زبان خلق کو بھی دھیان میں رکھیں لیکن یہ خود عقل کل تھے’ اپنی تعریف کرنے والے’ اپنی کارکردگی اور سوجھ بوجھ کی تعریف کرنے والے ہی ان کے دل کو بھائے۔ حالانکہ لوگ انہیں متنبہ کرتے رہے مگر انہیں کچھ سمجھا نہ سکے۔ اب بیوروکریسی میں وہ لوگ ان کے قریب ہیں جو ان کی کسی بات کی مخالفت نہیں کرتے۔ سب اچھا ہے کی آوازیں ان کے اردگرد گونجتی ہیں’ ان جھوٹی آوازوں کی بازگشت تو وزیراعظم صاحب کی حالیہ تقریر میں بھی سنائی دیتی تھی لیکن ان لوگوں کی کارکردگی حکومت وقت کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ جو ٹیم وزارتوں کے اعلیٰ ترین افسران کی صورت میں اکٹھی کی گئی ہے ان کی حکومت سے وفاداری کا یہ عالم ہے کہ ایک کے بعد ایک حکومت بحران میں پھنستی چلی جاتی ہے اور جب تک وہ اپنے قدموں پر واپس نہ لوٹیں بحران حل نہیں ہوتا۔ اس ملک سے محبت کرنے والوں کی تعداد یوں بھی کم ہوتی جاتی ہے اور ان کے حوصلے پہلے سے بہت پست ہیں۔ گزشتہ حکومتوں میں انہیں کھڈے لائن لگایا جاتا اس حکومت میں چونکہ اپنی مخالفت میں درست فیصلہ سننے کا حوصلہ بھی نہیں اس لئے ان افسران کیساتھ بدزبانی اور بدتمیزی بھی روز کا معمول ہے۔ وہی لوگ جو اس حکومت کے آنے پر بے انتہا خوش تھے’ ملک دوستی اور اپنے ملک کیلئے کچھ کر دکھانے کے جذبے سے سرشار تھے اب مایوس ہیں اور ان کی بڑی تعداد اب خاموشی سے وقت گزارنے کا انتظار کرنا چاہتی ہے۔ اس حکومت کی بار بار ناکامی میں اس مایوسی کا بہت عمل دخل ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے حکومت کی حالیہ ناکامی بھی ان کے اپنے روئیے اور غلط فیصلوں کے ہی باعث ہے۔ فواد چوہدری اپنی ہی جماعت کی جن غلطیوں کی نشاندہی کرتے رہے اس میں بہتر طریقہ کار تو یہی ہوتا کہ تحریک انصاف کے عہدیداران سرجوڑ کر بیٹھتے اور اپنے رویوں پر نظرثانی کرتے۔ یہاں ایک علیحدہ ہی سیاسی دنگل کا آغاز ہوگیا ہے۔ اس سب کے نتیجے میں کم ازکم یہ تو ہوا کہ ایوان کو وزیراعظم سے شرف ملاقات حاصل ہوا لیکن وزیراعظم اور ان کے التفات کے داعی اپنی غلطیوں سے نظریں پھیرے سب اچھا ہے کی آوازیں لگاتے رہے۔ وزیراعظم صاحب نے دو سالوں میں اپنی حکومت کے کارنامے بھی گنوائے جو خاصی پریشان کن بات تھی یعنی وہ کہیں نہ کہیں اس سب اچھا ہے کی تکرار میں یقین رکھتے ہیں۔ گویا بہتری کی اُمید رکھنا فضول ہے کہ وہ تو اپنے تئیں مطمئن ہیں۔ وہ اس ملک کیلئے اچھے کام کر رہے ہیں، ادھر عوام کی کسمپرسی کا عالم یہ ہے کہ وہ جو کبھی اس ملک سے ہجرت کا سوچتے تک نہ تھے اب وہ ملک تلاش کرنے لگے ہیں جہاں ان کی زندگی کی مشکلات کچھ آسان ہو جائیں گی۔
(باقی صفحہ 7)

مزید پڑھیں:  جائیں تو جائیں کہاں ؟