بدعنوانی کی سنگین صورتحال

خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرکی جانب سے کوہستان کرپشن سکینڈل میں 40ارب روپے کی بدعنوانی میں موجودہ اور سابقہ حکومتوں کے اہم عہدیداروں کے ملوث ہونے اور نیب کے ہاتھوں 21ارب روپے کی ریکوری اور اسلام آباد اور ایبٹ آباد میں اربوں روپے کی جائیدادیں منجمد کرنے کا دعویٰ ہر سطح پر قابل توجہ ہے صوبائی اسمبلی میں پریس بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ کوہستان کرپشن سکینڈل ادارہ جاتی ناکامی ہے اس میں سی این ڈبلیو، اکائونٹ جنرل آفس اورمحکمہ خزانہ بھی ملوث ہیں۔بدعنوانی کے واقعات کا جس سنجیدگی سے نوٹس لینے اور سرکاری اداروں کو جس فعالیت کے ساتھ ہر چھوٹی بڑی سطح پر کارروائی کرنے کی ضرورت ہے اس کی کمی ہر دور حکومت میں شدت سے محسوس ہوتی آئی ہے جن معاملات کے حوالے سے اپوزیشن لیڈر نے توجہ دلائی ہے یا پھراس پر سنجیدہ قسم کے وی لاگ ہو رہے ہیںان ساروں کا محور بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات پر زور ہے سیاسی وابستگی کو ایک طرف رکھ کر پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین اور سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کی کوہستان کرپشن سکینڈل میں فعالیت کا حزب مخالف کی جانب سے اعتراف جہاں حوصلہ افزاء طور پر مثبت امر ہے وہاں تحریک انصاف کی بدعنوانی کی شکایات کی تحقیقات کے لئے تشکیل کمیٹی سے وابستہ توقعات کا پورا نہ ہونا بھی خلاف حقیقت امر نہیں توقع کی جانی چاہئے کہ حکومت ہر سطح پر ایسے امور کا نوٹس لے گی جس میں بدعنوانی کے الزامات یا امکانات ہوں اور جامع تحقیقات کے بعد نہ صرف کوہستان کرپشن سکینڈل کے حقیقی اور تمام ملزمان کوکیفر کردار تک پہنچائے گی بلکہ بدعنوانی کی روک تھام کے لئے بھی سنجیدہ مساعی پر توجہ مرکوز ہو گی اور صوبے کو بدعنوانی سے پاک کرنے کا فریضہ و خوبی بحسن و خوبی نبھایا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  حقیقت نہیں پراپیگنڈا