پاکستان اور ہندوستان کے مابین 10مئی کو امریکی انتظامیہ اور دیگر دوست ملکوں کی مداخلت کے نتیجے میں قائم ہونے والی عارضی فائر بندی کسی وقت بھی دریائی پانی کے حل شدہ معاملے کو ہندوستان کی جانب سے متنازعہ بنانے کے مسئلے پر ٹوٹ سکتی ہے ۔فائر بندی کے فورا بعد13مئی کو بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے اپنی حکومت کے موقف کو دہراتے ہوئے بتایا کہ ہندوستان کی جانب سے انڈس واٹر ٹریٹی یا سندھ طاس معاہدہ اس وقت تک معطل رہے گا جب تک پاکستان واضح طور پر سرحدوں کے آر پار مبینہ دہشت گردی کی حمایت کرنا ترک نہ کر دے۔ دوسری جانب پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ہندوستان کی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت دیے گئے پاکستان کے پانی کے حصے میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ کو ایک اقدام جنگ تصور کیا جائے گا۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں واقعہ پہلگام 22 اپریل کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے مابین ایک محدود لیکن انتہائی شدید فوجی جھڑپ کے تناظر میں یہ بات واضح نظر آرہی ہے کہ اگر انڈس واٹر یٹی کچھ عرصے مزید معطل رہا تو اس کے انتہائی شدید نتائج دونوں ملکوں کو ایٹمی جنگ تک لے جا سکتے ہیں۔ اس لیے یہاں پہلے اس بات کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے پاکستان اور ہندوستان کے تازہ ترین موقف کیا ہیں ؟ اور یہ موقف کہاں پر آکر ایک جنگ کی صورت اختیار کر سکتے ہیں؟ اور کہاں پر ان کو فی الحال ایک جامد حالت میں رکھ کر برصغیر میں جنگ کے منڈلاتے ہوئے گھنے بادلوں کو آگ و آہن برسانے سے روکا جا سکتا ہے ۔انڈس واٹر ٹریٹی جس کو عالمی بینک کی ضمانت اور ثالثی سے ستمبر1960میں پاکستان اور ہندوستان نے دستخط کیا دنیا کے بہترین اور قابل عمل ریاستوں کے مابین دریاء پانی کی تقسیم کا معاہدہ خیال کیا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ اپنے اندر ایک پائیداری کا عنصر اس لیے رکھتا ہے کہ اس میں کوئی تاریخ تنسیخ موجود نہیں ہے اس کے اندر کسی بھی قسم کے اختلافات اور متعلقہ مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک باقاعدہ تین درجاتی نظام موجود ہے جس میں انڈس واٹر کمشنرز کو متعلقہ شکایت حل کرنے ، کسی مسئلے پر اختلاف رائے کو عالمی بینک کے مقرر کردہ ایک غیر جانبدار اور غیر متنازعہ ماہر سے رجوع کرنے اور اگر ایکسپرٹ کی رائے کے باوجود کو اتفاق رائے نہ ہو تو عالمی ثالثی قائم کرنے اور مسئلے کو حل کرنے کا ایک باقاعدہ نظام موجود ہے۔ اس معاہدے کو کوئی بھی فریق یکطرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتا اور معاہدے کے اندر کوئی ایسی شق موجود نہیں ہے کہ اس معاہدے کو عارضی مدت یا طویل مدت کے لیے معطل رکھا جا سکے۔ اس معاہدے کی آرٹیکل 12ذیلی دفعہ3میں اس بات کا حق دیا گیا ہے کہ معاہدے میں کسی بھی تبدیلی کے لیے فریقین یعنی پاکستان اور ہندوستان آپس میں گفت شنید کر کے تبدیلی یا کوئی اضافہ کر سکیں گے۔ بھارت کی جانب سے ان کے وزیراعظم نریندرا مودی نے 2016 میں اڑی کے علاقے میں ہونے والی مبینہ دہشت گردی کے واقعے کے بعد اپنی اس خواہش کا اظہار کر دیا تھا کہ "خون اور
پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے”۔ دیگر لفظوں میں وہ پاکستان دشمنی میں پاکستان کے دریاء پانی کو روکنے کی ایک باقاعدہ سوچ رکھتے تھے ۔یہ وہی سوچ تھی جو1948میں بھارتی پنجاب کے وزیر اعلی گوپی چند بھرگاوا کی تھی جس کی وجہ سے آزادی کے فورا بعد 1948میں پہلی بار پاکستان آنے والے دریائی پا نی کو روکا گیا تھا اور اس سوچ کے رد عمل کے طور پر پاکستان کے فیصلہ سازوں نے ا س منصوبے کو آگے بڑھا کر ورلڈ بینک کی ثالثی اور کوششوں سے ایک معاہدے کی شکل دی۔ نریندرا مودی کی یہ سوچ بڑی تیزی کے ساتھ پاکستان کو معاشی و زرعی طور پر مفلوک الحال بنانے کے ایک منصوبے میں تبدیل ہوئی جس کی جانب بڑا قدم2019 میں اٹھایا گیا جبکہ کشمیر کی ہندوستان کے آئین میں خصوصی حیثیت کی ضمانت دینے والی شق370کو بھارتی آئین سے نکال دیا گیا اور کشمیر کو ہندوستان کے وفاق کا ایک باقاعدہ حصہ بنا دیا گیا۔ بات یہیں نہیں رکی بلکہ جموں و کشمیر ری ارگنائزیشن ایکٹ 2015 کو نافذ العمل کیا گیااور آرٹیکل 35 کو بھی ختم کر کے کشمیر میں ساری زمینوں کی تقسیم کا انتظام مرکزی حکومت کو دے دیا گیا۔ ہندوستانی حکومت کی سوچ باقاعدہ طور پر25 جنوری 2023 کو اس وقت سامنے آئی جب اس
نے انڈس واٹر ٹریٹی میں کچھ تبدیلیاں کرنے کا باقاعدہ نوٹس حکومت پاکستان کو دیا اس کے بعد دوسرا نوٹس جو کہ حکومت پاکستان کو 30اگست2024کو دیا گیا اس میں مودی حکومت نے چند تبدیلیوں کا ذکر کیا ہے جس کی بنیاد پر وہ اس معاہدے کا حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر ازسر نو جائزہ لینا چاہتی ہے۔ ان تبدیلیوں کا تعلق آبادی میں اضافے اور اس سے متعلقہ مسائل، ماحولیاتی معاملات ، صاف توانائی کی ضروریات ، سرحدوں کے آر پار مبینہ دہشت گردی اور تحفظ سے تھا ۔اس دوران21جنوری 2025کو کشن گنگا اور ریٹلی ڈیم کی دریائے چناب پر تعمیر کے مسئلے پر واٹر ٹریٹی کے تحت غیر جانبدار ماہر کی جانب سے ہندوستان کے موقف کی تائید اور پاکستان کے موقف کی ناکامی نے مودی حکومت کی پاکستان مخالف سوچ کی مزید اآبیاری کر دی ۔اس تناظر میں 22اپریل کو واقعہ پہلگام میں26سیاحوں کی دہشت گردی کے ایک واقعہ میں اموات نے مودی حکومت کو ایک اور موقع فراہم کیا کہ وہ مبینہ کراس بارڈر دہشت گردی کا الزام بنا کسی ثبوت کے حکومت پاکستان کے ذمے ڈال دے اور اس کی آڑ میں 25اپریل کو ہندوستان نے 1960کے انڈس واٹر ٹریٹی کو معطل کر دیا اور13 مئی کو اپنے اس مقف کا اعادہ بھی کیا کہ یہ معاہدہ اس وقت تک معطل رہے گا جب تک اس مبینہ دہشت گردی کی روک تھام پاکستان کی جانب سے باقاعدہ طور پر نہ ہو جائے۔ اس معاہدے پر پاکستان کا مقف کیا ہے؟ بین الاقوامی قانون اس بارے میں کیا کہتا ہے اور کیا یہ معاہدہ ایک واٹر بم کی طرح پاکستان پر گر سکتا ہے؟ اگر ایسا ہوا تو پاکستان کیا کرے گا ؟ ہندوستان کیا کرنا چاہتا ہے ؟ ان تمام سوالوں کا تجزیہ اس کالم کی دوسری قسط میں کیا جائے گا۔ (جاری)
