یونیورسٹیوں کے ریٹائرڈ ملازمین کا نوحہ

پاکستان بھر میں عموماً اور خیبر پختونخوا میں خصوصاً جو استحصال یونیورسٹیوں کے ریٹائرڈ ملازمین کا ہورہا ہے اس کی مثال پوری دنیا میں نہیں مل سکتی ۔گزشتہ سات برسوں سے یونیورسٹیوں سے ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کو ان کے پنشن اور دیگر واجبات نہیں ملے اور کئی مہینوں سے ان کو ماہانہ پنشن بھی نہیں ملتی یا پھر قسطوں میں ان کو پنشن دی جاتی ہے ۔ اس کی وجوہات بھی ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد جامعات کی فنڈنگ کووفاق اور صوبوں کی رسہ کشی میں وہیں پر رہنے دیا گیا اور اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ۔وفاق 2007 میں 65ارب روپے ہائرایجوکیشن کمیشن کو سالانہ دیتا تھا اور موجودہ مالی سال میں بھی یہ رقم 65ارب روپے ہی ہے ۔ ان 65 ارب روپوں میں یونیورسٹیوں کو 32ارب روپے دئیے جاتے ہیں اور باقی رقم ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان خود خرچ کرتی ہے ۔ یونیورسٹیوں کو اس کے بجٹ کا کسی زمانے میں 60فیصد ہائر ایجوکیشن دیتی تھی اب یونیورسٹیوں کو 25فیصد بھی ہائر ایجوکیشن کمیشن بمشکل دیتی ہے وہ بھی خیبر پختونخوا کی 34 میں سے صرف 16 یونیورسٹیوں کو باقی کو وہ بجٹ کے لیے بھی کچھ نہیں دیتا ۔ یونیورسٹیاں خود باقی اخراجات پوری کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔یونیورسٹیوں کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ طلبا سے فیسوں کی شکل میں آتا ہے لیکن یہ آمدن کل بجٹ کے 25 فیصد سے بھی کم ہے ۔ اس طرح یونیورسٹیاں کو سالانہ 50فیصد خسارہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کو صوبوں کو منتقل ہوجانا چاہئیے تھا اور وفاق تعلیمی بجٹ بھی صوبو ں کے حوالے کرتا مگر ایسا ہوا نہیں اختیارات کا استعمال صوبوں نے شروع کیا مگر مالی ذمہ داریوں سے گریزاں رہے ۔ سندھ نے اپنی یونیورسٹیوں کے لیے باقاعدہ بجٹ میں 35ارب روپے رکھے اور وفاق سے ملنے والے پیسوں کو ملا کر ان کی یونیورسٹیوں کا مالی خسارہ کسی حد تک کم ہوا ہے اور وہاں یونیورسٹیوں کے ملازمین کو تنخواہوں اور پنشن کے مد میں زیادہ مشکلا ت نہیں ہیں ۔ مگر خیبر پختونخوا میں یہ سلسلہ ہر روز زیادہ گھمبیر ہوتا جارہا ہے ۔ خیبر پختونخوا میں پرانی یونیورسٹیاں جیسے پشاور یونیورسٹی ، گومل یونیورسٹی ، انجینئرنگ یونیورسٹی ، زرعی یونیورسٹی ان کا پنشن کا بوجھ بہت زیادہ ہے ۔ان اداروں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ ریٹائرڈ ہوئے ہیں اور مسلسل ہورہے ہیں یہ ملازمین شدید مالی مشکلات سے دوچار ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی ترین تیس چالیس برس اس قوم کے بچوں اور بچیوں کو پڑھانے اور ان کی تربیت میں صرف کیے ہیں ۔ یہ سب سفید پوش لوگ ہیں ان کی واحد ذریعہ آمدنی یہی ملازمتی تنخواہ اور بعد میں پنشن تھی۔اس سفید پوش طبقہ نے کمال ضبط کا مظاہرہ کیا ہے ۔لیکن اب ان کی قوت برداشت جواب دے گئی ہے اس لیے کہ مہنگائی کے اس دور میں اب ان کا گزارہ مشکل ہوگیا ہے ۔ ان ملازمین میں کلاس فور ،کلاس تھری ، یونیورسٹی کے سابقہ افسران اور اساتذہ سب شامل ہیں ۔ ان پنشنرز میں سے زیادہ افراد بیمار ہیں اور چل پھر بھی نہیں سکتے لیکن وہ اپنی بیماری کی حالت میں ہاتھوں میں کاغذات اٹھائے یونیورسٹیوں کے ٹریژرروں کے دفتروں کے روزانہ چکر کاٹتے رہتے ہیں ۔ ان کے آنکھوں میں جو بے بسی ہے اسے دیکھ کردکھ ہوتا ہے ۔ یہ عام لوگ نہیں ہیں یہ اپنے دور کے سب سے قابل اور زیادہ تعلیم یافتہ لوگ ہیں ۔ان کے لاکھوں شاگرد صوبہ اور ملک میں اعلیٰ ترین عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ملکی ترقی کا تمام تر دارومدار اس کی تعلیمی بہتری میں ہے اور استاد تعلیمی نظام کا سب سے اہم پرزہ ہے ۔جو قومیں تعلیم پر سرمایہ کاری نہیں کرتیں ان کا کل ہمیشہ تاریک ہوتا ہے
۔ اس ملک میں اشرافیہ کے لیے سب کچھ موجود ہوتا ہے ۔ حالیہ دنوں میں قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران ، ہائی کورٹ و سپریم کورٹ کے ججوں ، بیوروکریٹس اور ہر طاقت وار طبقے کے تنخواہوں اور مراعات میں ہوش رُبا اضافہ کیا گیا ہے ۔ مگر یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور ملازمین کواس فہرست میں شامل ہی نہیں کیا گیابلکہ ان کو ان کی کم ترین تنخواہ بھی بروقت نہیں دی گئی اور وہ جو ریٹائرڈ ملازمین ہیں ان کو سرے سے کسی نے توجہ ہی نہیں دی ۔ یونیورسٹیاں بھی اس نظام کا حصہ ہیں ۔ یہ سرکاری یونیورسٹیاں ہیں ان کے مالی ضروریات پورے کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ اب یونیورسٹیوں میں اپنے مستقبل سے مایوس ہوکر اور یونیورسٹیوں کے مالی حالات دیکھ کر بدترین برین ڈرین کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور ہر یونیورسٹی سے درجنوں کے حساب سے پروفیسر اور پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈرز اپنی نوکریاں چھوڑ کر دیگر شعبوں اور ملکوں میں جارہے ہیں ۔ یونیورسٹیوں کے اساتذہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے افراد ہوتے ہیں اس لیے کہ ان کی تعلیم اعلیٰ سطح کی ہوتی ہے اور ان کی صلاحیتیں دوسرے لوگوں سے زیادہ ہوتی ہیں ۔مگر پاکستان میں اس کے بالکل الٹ ہورہا ہے ۔ یہاں بی اے پاس ایک بابو کی تنخواہ ایک پی ایچ ڈی پروفیسر سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے اور پروفیسر کو کسی بھی مراعات کا حقدار نہیں سمجھا جاتا اور سطحی نوعیت کے ڈگری پر نوکری حاصل کرنے والے بندے کو ایسی ایسی مراعات حاصل ہوتی ہیں جن کا تصور کوئی بھی ترقی یافتہ ملک نہیں کرسکتا ۔ یہ حکومت کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ یونیورسٹیوں کے پنشن کے اس دیرینہ مسئلہ کو حل کرے ۔ پنشن کے اس بوجھ کی وجہ سے یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر صاحبان کو بھی شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لیے کہ یہ تمام پنشنرز روزانہ کی بنیاد پر وائس
چانسلرز کے دفاتر آتے ہیں چونکہ وائس چانسلر صاحبان ان سینئر ریٹائرڈ اساتذہ اور ملازمین کا حد سے زیادہ احترام کرتے ہیں اس لیے ان کو وقت بھی دیتے ہیں مگر چونکہ ان کے مسائل کا حل ان کے بس میںنہیں ہوتا اور ان کو پنشن دینے کے لیے جو مالی وسائل درکار ہیں وہ اس وقت کسی بھی یونیورسٹی کے پاس نہیں ہیں ۔ موجودہ حکومت کی پالیسی کے مطابق اب جو بھی یونیورسٹی میں بھرتی ہوگا وہ سی پی فنڈ پر بھرتی ہوگا ۔ یعنی موجودہ پنشن کا نظام اس پر لاگو نہیں ہوگا ۔ مگر جو لوگ اب سے پہلے کے نظام میں ہیں ان کو دیگر شعبوں کی طرح ان کا حق ملنا چاہئے ۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد بہت زیادہ وقت ہوگیا ہے اب اعلیٰ تعلیم کو مکمل طور پر صوبوں کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر قبول کرنا ہوگا اور دیگر محکموں کی طرح یونیورسٹیوں کو صوبائی بجٹ کا حصہ بنانا ہوگا ۔ اس طرح ہم اپنے صوبہ کو دوسرے صوبوں کی طرح تعلیم ترقی میں شامل کرسکتے ہیں اور اپنے قابل ترین لوگوں کو دیگر صوبوں اور ملکوں میں جانے سے روک سکتے ہیں ۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو اگلے چند برسوں میں یہاں کسی بھی یونیورسٹی میں پڑھانے کے لیے کوئی بھی قابل انسان نہیں ملے گا اور یہ اس صوبہ کی سب سے بڑی بدقسمتی ہوگی ۔ یونیورسٹیوں کے پنشنرز کی موجودہ بدحالی دیکھ کر بھی بے شمار لوگ اب یونیورسٹی میں ٹیچنگ کے پروفیشن کو چھوڑ کر کسی دوسرے شعبہ میں جانے کا سوچ رہے ہیں ۔ چین نے صرف امریکہ اور یورپ سے اپنے یونیورسٹی ٹیچروں کو تربیت دلانے اور پی ایچ ڈی کروانے پر دس برسوں میں ایک ٹریلین ڈالر ز سے زیادہ پیسہ خرچ کیا ہے جس کا نتیجہ آج ایک ترقی یافتہ چین کی صورت میں نظر آرہا ہے ۔ اس لیے جو اس وقت قابل ترین اور تربیت یافتہ یونیورسٹی اساتذہ آپ کو میسر ہیں ان کو ان کا حق دیں تاکہ ترقی کا سفر رُکے نہیں بلکہ آگے بڑھے ۔

مزید پڑھیں:  بڑا شور سنتے تھے دل کا