سوشل میڈیا کے ا یپ ایکس(ٹوئٹر) پر وائرل ہونے والے ایک ویڈیو میں حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران لائن آف کنٹرول پر ہمارے جوانوں کی سندھی ‘ پنجابی اور پشتو زبانوں میں گونجتی آوازوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے کس طرح ایک قوم بن کر یہ جنگ لڑی اس قسم کی لاتعدادتصویریں ‘ ویڈیوز اور ٹک ٹاک پر دنیا بھر میں بھارتی ہزیمت کے حوالے سے اٹھائے جانے والے سوالات ‘ مزاحیہ ویڈیوز کی بھر مار ہے جبکہ خود بھارت کے سابق فوجی جس طرح اپنے حکمرانوں اور حکومتی ناکامیوں کی بھد اڑا رہے ہیں وہ بھی اپنی جگہ ‘ تاہم پاکستانیوں کے اندر (چند بدبختوں کو چھوڑکر) اتحاد و اتفاق ‘ کے جو نظارے دیکھنے کو مل رہے ہیں ان پر ایک سینئر صحافی سلمان غنی نے ٹوئیٹر پر ہی بہت خوبصورت تبصرہ کیا ہے اور وہ اپنی ٹوئیٹ میں رقمطراز ہیں کہ ”پاک بھارت جنگی کیفیت کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ہم پھر سے قوم بن گئے اور پاکستانیت سب سے معتبر حوالہ بن کر آیا پختون ‘ بلوچ عصبیت دب کر رہ گئی اور جنگی کیفیت میں قومی جذبہ کا اظہار وہ جذبہ حقیقی ہے جسے بروئے کار لا کر ہم کوئی بڑی کامیابی سمیٹ سکتے ہیں جس کے لئے قدم حکومت کو بڑھانا ہوگا”سلمان غنی نے جس قومی اتحاد و اتفاق کی جانب اشارہ کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ ہم پھر سے قوم بن گئے ہیں تو ان کے اس دعوے کو 95/98 فیصد تسلیم کرنے میں کوئی حرج ہے نہ شک کیونکہ اس قومی امتحان میں بھی ایک خاص ”ذہنیت” کے گنتی کے کچھ لوگ بدقسمتی سے سرخرو نہ ہوسکے بلکہ سوشل میڈیا پر جو رویہ اختیار کرتے ہوئے انہوں نے اپنی”ذہنیت” واضح کی اگرچہ اس سے قوم کے مورال پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا تاہم انہوں نے وطن کے خلاف دلوں میں پلنے والے بغض و عناد کو چھپایا بھی نہیں اور جیسے ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان ”صدیوں کی نفرت کے جذبات میں تپتی ہوئی آگ” عالمی برادری خصوصاً امریکہ کی کوششوں سے ٹھنڈی ہو کر جنگ بندی پر منتج ہوئی اس بدبخت طبقے کی زبانیں ایک بار پھر آگ اگلنے میں مصروف ہو گئی ہیں تاہم ہمارا مقصدسنجیدہ طبقے کی جانب سے صورتحال پر تبصرے میں اس نکتے پر اجماع کی جانب اشارہ مقصود ہے کہ ”ہم پھر سے قوم بن گئے اور پاکستانیت سے معتبر حوالہ بن کر آیا” حالانکہ ہم نے ذاتی طور پر اس دعوے کو ( جو یقینا خوش آئند ہے ) 95/98 فیصد درست قرار دیا ہے اور یہ جو دو سے پانچ فیصد کے حوالے سے ” ایک آنچ کی کمی ” کی بات کی ہے تو اس کی وجوہات میں ایک تو ملک وقوم سے بغض وعناد میں سجانے والے طبقے کے حوالے سے ہمارا تجزیہ ہے اور دوسرا اس سے بھی اہم ماضی میں ایسے ہی حالات سے گزرتے ہوئے آج سے تقریباً ساٹھ سال پہلے ہماراوہ قومی رویہ تھا جس نے حقیقی طور پر ہمیں اتحاد و اتفاق کی ایک ایسی لڑی میں پروکر رکھ دیاتھا جس کا نظارہ ہماری قومی تاریخ میں پھر کبھی دیکھنے میں نہیں آیا یہاں تک کہ اس دور میں معجزے ہی معجزے رونما ہوتے دیکھے گئے اور یہ واقعہ پاک بھارت جنگ 1965ء کا تھا جب بھارت نے حالیہ جنگ کی طرح تب بھی جو اس نے پاکستان پر شب خون مار کر شروع کی اور نہ صرف سیالکوٹ بلکہ واہگہ بارڈر سے بی آر بی نہر کو عبور کرتے ہوئے بزعم خویش پاکستان کو ”تسخیر” کرنے کی کوشش کی لیکن اسے نہ صرف ہر سیکٹر پر منہ کی کھانی پڑی بلکہ سترہ دن کی اس جنگ کے دوران پاکستانی قوم نے جس لازوال وطن پرستی ‘ قومی یکجہتی ‘ اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے ایک سرے سے وسرے سرے تک کیا وہ تاریخ کا ایک انمٹ باب ہے حد تو یہ ہے کہ ان دنوں میں لوگ گھروں کے دروازے کھلے چھوڑ کرملک کی حفاظت کے لئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے تھے اور یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اس ایک ڈیڑھ مہینے کے دوران پورے ملک میں چوری چکاری ‘ ڈاکہ زنی ‘ قتل مقاتلے یا اور کوئی قانون شکنی کی واردات ہوئی ہی نہیں یہ کسی قوم کی زندگی میں جو ویسے تو معاشرتی عصبیتوں کے حوالے سے کوئی اتنا قابل رشک امن پسند معاشرہ تھا ہی نہیں مگر جنگ کے دنوں میں جیسے لوگوں نے ذاتی دشمنیاں تک بھلا کر رکھ دی تھی اور ہر شخص کو اگر دشمنی کی فکر تھی تو صرف بھارت کے حوالے سے ۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران قوم نے جس جذبے او رقومی یک جہتی کا مظاہرہ کیا تھا اس کی لازوال یادیں اب بھی یادداشت کا حصہ ہیں اس دور میں جہاں پاکستانی افواج نے جرأت و بہادری کی داستانیں رقم کیں خصوصاً سیالکوٹ کی جانب بڑھنے والے بھارتی ٹینکوں کی یلغار کو جس طرح ہماری عظیم افواج کے جوانوں نے جسموں سے بم باندھ کر ان ٹینکوں کو اڑا کر خاک وطن کی حفاظت کی ‘ اسی طرح ایم ایم عالم نے بھارت کے چار طیاروں کو ایک منٹ کے مختصر ترین وقت میں زمین پر گرایا اور جنگی تاریخ میں ایک ریکارڈ قائم کیا بالکل اسی طرح جس طرح ابھی بھارت کے رافیل اور دوسرے طیاروں کوخاک چاٹنے پر مجبور کرکے ایک اور ریکارڈ قائم کیا اسی طرح دیگر بہادر فضائی پائلٹوں نے بھارت کے اندر دور تک جا کر کئی ہوائی اڈوں کوتہس نہس کرکے جانوں کے نذرانے پیش کئے اور کئی بہ حفاظت واپس آنے میں بھی کامیاب و کامران لوٹے جبکہ تازہ مبارزت کے حوالے سے پاکستانی شاہینوں نے جو کارنامے انجام دیئے ان کی تفصیلات کچھ تو آچکی ہیں اور کچھ وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آتی رہیں گی اور بھارتی فضائیہ کے طیارے کہاں کہاں گر کر ٹکڑوں میں بٹ چکے ہیں اس حوالے سے خود ایک بھارتی فلم کا نغمہ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ کچھ یوں بن جاتا ہے کہ
”رافیل” کے ٹکڑے ہزار ہوئے
کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا
البتہ جہاں تک ایک قوم بننے کی بات کا تعلق ہے تو یقینا1965 کے بعد پہلی بار ہم ایک کٹھن امتحان سے گزر کر سرخرو ہو چکے ہیں اور دعا ہے کہ ہم اسی جذبے سے سرشار ہو کر آئندہ بھی قومی یکجہتی سے متصف ہونے میں کوئی کسرنہ اٹھا رکھیں اور جہاں تک ملک کا دفاع کرنے والوں کے کارناموں کا تعلق ہے جن کی اب عالمی سطح پر پذیرائی ہو رہی ہے تو اس عظیم فوج کے ہر ہر شعبے کو کارکردگی کے حوالے سے بام عروج پر پہنچانے والوں کی خدمات کے اعتراف کے حوالے سے بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ
اجنبی راستے پر قطبی ستار ے جیسے
اچھے لگتے ہیں مجھے لوگ تمہار ے جیسے
