چند دہائیاں پہلے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں جن میں گیس، پانی، گلیوں کی تعمیر و مرمت جیسے مقامی بلدیاتی ادارے بھی شامل ہوا کرتے تھے، ان منصوبوں کی تکمیل کے ضمن میں جو ٹینڈر جاری کئے جاتے ان میں متعلقہ علاقوں میں جو تعمیراتی کام کئے جاتے تھے ان میں کھدائی سے لیکر واپس یعنی تکمیل کے بعد متعلقہ محلہ، گلی، سڑک کی بحالی پوری طرح شامل ہوا کرتی تھی، مگر خدا جانے وہ کون سے عوامل تھے یا پھر متعلقہ محکموں کی ملی بھگت تھی (جو اب تک جاری ہے )کہ ایک محکمہ ا کر اپنے منصوبے کی تکمیل کیلئے گلیوں، سڑکوں، فرشوں کو کھود کر چلا جاتا ہے اور دوسرا ادارہ اپنے حصے کی مرمت کی رقم لیکر ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں ہوتا، اب یہی صورتحال جاری ہے کہ گلیوں کے اندر سوئی گیس کے پائپ بچھانے ہوں، پانی کی سپلائی کیلئے پائپوں کی تبدیلی ہو یا دیگر بلدیاتی کاموں کی تکمیل ہو، ان کاموں کیلئے جو محکمہ یا ادارہ کام کا آغاز کرتا ہے وہ اپنا کام کر کے کھو دی ہوئی گلیوں کا ملبہ بس کھڈوں پر ڈال کر چلتا بنتا ہے، اور مرمت کی رقم دیگر متعلقہ محکمے یا ادارے کو ادا تو کر دیتا ہے مگر اس سے اس بات کی ضمانت نہیں لیتا کہ مقررہ مدت میں گلی یا سڑک کی ضروری مرمت اور بحالی کو یقینی بنایا جائیگا، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شہر بھر میں گلیاں بار بار توڑے جانے اور کھدائی کے ہاتھوں تباہ حال ہو کر رہ جاتی ہیں جبکہ مرمت کی رقم وصول کرنیوالا ادارہ یا محکمہ رقم وصول کر کے اپنے اکاؤنٹس میں منتقل کرنے کے باوجود ذمہ داری پوری نہیں کرتا، آج کل گلبہار کالونی میں سوئی گیس کے پائپ تبدیل کئے جانے کی وجہ سے گلیاں کھنڈر بنانے کے بعد ملبہ کھڈوں پر ڈال کر گلیوں کو جس طرح کھنڈرات میں تبدیل کیا جا رہا ہے، ان کو واپس مرمت کے عمل میں گزارنے کی ذمہ داری کس پر عاید ہوتی ہے، اس لئے گزارش ہے کہ پرانے سسٹم کو بحال کر کے گلیوں ،سڑکوں کی کھدائی سے لیکر واپس مکمل تعمیر و مرمت کی ذمہ داری ایک ہی ٹھیکیدار کو دیکر عوام کو عذاب سے بچانے کا طریقہ رائج کیا جائے۔
