نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن

ہر نئے مالی سال میں عوام کو مہنگائی اور مختلف طریقوں سے مزید مالی بوجھ کا شکار بنانے کی پوری تیاری میزانیہ کی بنیادی شرائط میں سے ہوتی ہے مشکل امر یہ ہے کہ کوئی بھی سال اس سے مستثنیٰ نہیں اور نہ ہی معاشرے کے کم آمدنی والے طبقے ہی کو کوئی رعایت ملتی ہے بلکہ یکساں طور پر سبھی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے سے دریغ نہیں کیا جاتا گزشتہ مالی سال کے میزانیہ کے مقابلے میں نئے مالی سال کا میزانیہ مزید بوجھ ڈالنے کا حامل ہوتا ہے حسب روایت سال گزشتہ کی طرح اس سال کے میزانیہ کی تیاری بھی آئی ایم ایف کی مرضی اور اس کے اشاروں پر ہورہی ہے ستم بالائے ستم یہ کہ بجٹ آئی ایم ایف سے پیشگی منظوری لینے کے بعدہی پیش کیا جائے گا اور آئی ایم ایف کی شرائط کو یقینی بنانے کے بھر پور اقدامات ہوں گے جس کا مطلب ہی عوام کو مزید زیر بار کرنا ہے اخباری اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت نے عالمی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف کو بڑی یقین دہانیاں کرائی ہیں جس کے تحت پیٹرولیم مصنوعات میں مزید لیوی، بجلی کے بلوں میں ڈیبٹ سروس سرچارج لگانے اور گیس کی قیمت میں اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے نئے مالی سال 2025-26ء کے بجٹ میں عوام کو اضافی مالی بوجھ اٹھانے کیلئے تیار رہنا ہوگا کیونکہ پیٹرول اور ڈیزل پر5 روپے فی لیٹر کاربن لیوی عائد ہو گی اور صوبے بجلی اور گیس پر کوئی سبسڈی نہیں دیں گے حکومت کو ڈیبٹ سروس چارج میں اضافے کا اختیار ہوگا اور نئے بجٹ میں بجلی سبسڈی میں کمی کی جائیگی ۔ پہلی بار یہ شرط آئی ہے کہ سٹاف لیول معاہدے کے تحت نیا بجٹ بنے گا۔اس کا مطلب ہے کہ جو نیا بجٹ ہو وہ اس طرح بنے کہ اس میں سٹاف لیول معاہدے میں طے پانے والے تمام اہداف کو حاصل کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں پرائمری بجٹ یعنی قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی کے بغیر اسے سرپلس کرنا ہو گا جس کے لیے ریونیو میں اضافہ اور اخراجات میں کمی کرنا ہو گی۔ فی الحال دفاعی بجٹ تو کم نہیں ہو گا تاہم ترقیاتی بجٹ پر کٹ لگ سکتا ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی و گیس کے شعبے میں جن شرائط کا کہا گیا ہے ان میں اس شعبے میں ٹیرف پر سالانہ بنیادوں پر نظر ثانی شامل ہے۔ بجلی و گیس کے شعبے میں ان شرائط کا مقصد ان کی پیداوار پر اٹھنے والی لاگت کو پورا کرنا ہے۔ قرض سر چارج پر عائد حد کے خاتمے سے بجلی کی قیمت پر بھی کچھ اثر ہو سکتا ہے۔ بجلی و گیس کے لیے سالانہ بنیادوں پر ٹیرف پر نظر ثانی کی جو شرط آئی ایم ایف کی جانب سے آئی ہے اس میں پاکستان سے کہا گیا کہ اس پر عملدرآمد کریں کیونکہ ملک میں پہلے سے سالانہ بنیادوں پر ان دونوں کے ٹیرف پر نظر ثانی کی جاتی ہے۔ سرچارج پر حد کے خاتمے کی شرط کا مقصد یہ ہے کہ گردشی قرضے کے خاتمے کے لیے بینکوں سے جو پیسہ لیا گیا ہے وہ اگر شرح سود بڑھتی ہے تو سرچارج میں اضافہ کر کے اس کی وصولی کی جائے تاکہ بجلی کے شعبے میں گردشی قرضہ زیادہ نہ ہو۔آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق زرعی ٹیکس کے نفاذ کے لئے قانون سازی تو ہو گئی ہے لیکن صوبے اس سلسلے میں ابھی بھی سست روی کا شکار ہیں۔ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے جہاں سب سے زیادہ زرعی ٹیکس اکٹھا ہونا ہے تاہم ابھی تک اس کے ریٹ بھی طے نہیں کئے گئے کہ ٹیکس کا ریٹ کیا ہو گا۔ ملک میں زرعی ٹیکس کا نفاذ ضروری ہے تاہم اس کی وصولی کا جو معیار رکھا گیا ہے کہ چھ لاکھ آمدن پر یہ لگے گا وہ چھوٹے کسانوں اور زمینداروں کے لیے مالی طور پر مشکل ہو گا۔نیز زرعی لاگت بڑھ گئی ہے اور اب ان کے لیے اس لاگت کو برداشت بھی کرنا ہے اور اس پر ٹیکس بھی دینا ہے، جو کہ ان کی مالی مشکلات بڑھا سکتا ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے ان11 نئی شرائط میں سول سرونٹس کے اثاثوں کی شرط تو شامل نہیں ہے تاہم جن تجاویز پر زور دیا گیا ان میں سے ایک شرط سول سرونٹس کے اثاثوں کو پبلک کرنے سے متعلق ہے۔یہ شرط بنیادی طور پر گورننس اور شفافیت کے زمرے میں آتی ہے جس میں21 اور 22 گریڈ کے سول سروس کے افسران شامل ہیں۔ سول افسران کے اثاثوں کو ظاہر کرنے کا کہا گیا ہے۔عوام کو بجٹ کی آمد پر مہنگائی میں شدت کا سامنا کرنا پڑے گایہ ان حکومتی دعوئوں کی صداقت پر سوالات کا باعث ہوگا جو مہنگائی کی شرح میں کمی کے دعویدار ہیں آئی ایم ایف کے سامنے دو زانو حکومت سے یہ بھی کہنے کی گنجائش نہیں کہ وہ عوام پر ترس کھائے کہ حکومت خود بھی نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی تصویربنی ہوئی ہے ان حالات میں عوام کا کیا بننے گا اور وہ کس حد تک مزید بوجھ سہار سکیں گے اس بارے کچھ کہنا مشکل ہے۔

مزید پڑھیں:  وفاقی بجٹ ' توقعات اور خدشات؟