نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحق ڈار ان دنوں چین کے دورے پر ہیں اسحق ڈارکی بیجنگ میں ہم منصب وانگ یی کے علاوہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے اہم اراکین سمیت دیگر سینئر چینی رہنمائوں سے جامع بات چیت ہو گی۔ یہ ملاقاتیں موجودہ علاقائی پیش رفت اور پاکستان چین تعلقات کی متعدد جہتوں پر توجہ مرکوز کرنے کا پیشہ خیمہ ثابت ہوں گی۔یہ دورہ پاکستان اور چین کے درمیان اعلی سطح کے تبادلوں اور دونوں برادر ممالک کے درمیان آل ویدر اسٹریٹجک تعاون پر مبنی شراکت داری کا ایک حصہ ہے۔ادھر چین کے دفتر خارجہ کی ترجمان ما ننگ نے کہا ہے کہ پاکستانی نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحق ڈار کا دورہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پاکستانی حکومت چین پاکستان تعلقات انتہائی اہم سمجھتی ہے دورے کے دوران وہ چینی خارجہ وانگ یی کے ساتھ جنوبی ایشیا کی ابھرتی ہوئی علاقائی صورتحال اور امن و استحکام پر اس کے مضمرات پر گہرائی سے بات چیت ہوگی ۔ملاقات میں فریقین پاکستان چین دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلوئوں کا بھی جائزہ لیا جائے گا اور باہمی دلچسپی کی علاقائی اور عالمی پیش رفت پر تبادلہ خیال بھی ہو گا۔جنوبی ایشیا کے دو بڑے ممالک پاکستان اور انڈیا میں ہونے والے حالیہ لڑائی کے بعد پاکستانی نائب وزیراعظم کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایک سفارتی وفد دنیا کے اہم ممالک میں بھیجنے کا فیصلہ بھی کیا تاکہ وہ عالمی برداری کے سامنے خطے میں امن قائم رکھنے کے لیے پاکستان کی کوششوں کو اجاگر کرے۔اس دورے کے موقع پرچین کے وزیر خارجہ وانگ یی سہ فریقی مذاکرات کی میزبانی بھی کریں گے، جس میں چین، پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت اور سکیورٹی تعاون کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنے کی توقع ہے۔تینوں فریقوں کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کا پہلا دور 10 مئی کو کابل میں ہوا تھا، جس کے ایجنڈے میں اقتصادی تعاون، سلامتی اور علاقائی استحکام شامل تھے۔اس مہینے کے شروع میں طالبان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ افغانستان کے لیے چین کے خصوصی ایلچی یو شیاونگ نے امیر خان متقی کو چین کے دورے کی دعوت دی تھی، اور یہ دعوت قبول کر لی گئی تھی۔حالیہ کشیدگی کے تناظر میں اس دورے کی اہمیت کے علاوہ اس دورے کی بطور خاص اہمیت چینی وزیر خارجہ کی سربراہی میں پاکستان چین اور افغانستان کے درمیان بات چیت ہو گی گو کہ پاک بھارت جنگ کے دوران طالبان کے ایک سینئر رہنماکا خفیہ دورہ بھارت ایک مایوس کن صورتحال تھی لیکن عین انہی دنوں کابل میں پاکستان چین اور افغانستان کے وفود بھی شریک گفتگو تھے یہ حسن اتفاق تھا یا پھرطالبان ترازو کے دونوں پلڑوں میں بیک وقت وزن ڈالنے کا تجربہ کر رہے تھے حالانکہ بیک وقت دو کشتیوں کی سواری کبھی دانشمندی نہیں سمجھی گئی ایک ایسے وقت جب پاکستان کی بھارت کے خلاف کامیاب جنگی حکمت عملی اور ٹیکنالوجی سے لے کر تربیت تک کی برتری نے عالمی سطح پر راتوں رات پاکستان اور پاکستانیوں کے حوالے سے تاثرات میں بڑی تبدیلی کا باعث بنا خطے میں طاقتور ملک ہونے کا بھارت کا امیج خاک میں مل گیا پاک چین دوستی ملکوں اور فوجوں کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی اور آلات حرب و ضرب تک مزید استوارہوئی یہ ایک ایسا موقع ہے جب علاقے اور خطے میں اب ایک نئی تاریخ لکھنے اور تعلقات کے نئے باب وا ہونے کاموقع ہے یہ طالبان حکومت کی دانش کا امتحان ہو گا کہ وہ اس موقع پر دو کشتیوں کی سواری کی غلطی کرتے ہیں یا پھر ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعمیر و ترقی اور مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے تعاون کا راستہ اختیارکرنے کا فیصلہ کرتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ جہاں پاکستان کی مشکلات میں کمی کی توقعات میں اضافہ ہو رہا ہے وہاں افغانستان کی عبوری حکومت کی بصیرت کا امتحان ہے کہ وہ بھارت کی بھیجی امدادی اشیاء کی تقسیم قیمت پر بھارت سے تعلقات کا فیصلہ کرتے ہیں یا پھروسیع تر تناظر میںپاکستان اور چین کے قریب آتے ہیں یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ افغانستان کے حکمران جو بھی راستہ اختیار کریں گے یہ اس امر کا تعین ہو گا کہ وہ کس کے اتحادی ہیں بھارت سے کابل کی قربت وہ غلطی ہو گی جس سے پاکستان کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے پاکستان جو پہلے ہی افغانستان کی سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کا بار بار عندیہ دیتا آیا ہے اور کابل کی حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہی ہے اس سے دونوں ملکوں میں عدم اعتماد کی جو کیفیت پہلے سے موجود ہے اس میں اضافہ ہو گاگو کہ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ چین سے دیگر اہم امور پر بھی تفصیل سے مذاکرات کریں گے تاہم سہ فریقی مذاکرات کی اہمیت خطے کے حالیہ اور آئندہ کے لئے خاص طور پر اہمیت کا حامل معاملہ ہے جس سے یہ طے ہوگا کہ آئندہ کے اتحادی اور معاونین کون ہوں گے اور کیا حکمت عملی اختیار کی جائے گی۔
