این ایف سی ایوارڈ ‘ ترقیاتی منصوبے اور۔۔۔

اصولی طور پر اس بات کو خوش آئند قرار دینے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہئے کہ وفاق اور صوبہ خیبر پختونخوا میں ”معاملات” طے ہو گئے ہیں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے ایک بیان میں کہا ہے کہ قومی مالیاتی کمیشن سمیت سی سی آئی میں جو معاملات رکھے تھے انہیں منوالیا ہے ‘ اس حوالے سے اگرچہ پوری تفصیل سامنے ہیں آسکی ‘ تاہم اگر یہ دعویٰ بحیثیت صوبے کے چیف ایگزیکٹو کے وزیر اعلیٰ خود کر رہے ہیں تو ان کی بات کو معتبر قرار دینے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہئے بلکہ اس کی تحسین کی جانی چاہئے ‘ بدقسمتی سے اکثر ہر سال بجٹ سے پہلے وفاق اور صوبوں کے درمیان صوبوں کے حصے حاصل کرنے کے حوالے سے اتفاق اور عدم اتفاق کے درمیان معاملات لٹک جاتے ہیں یہاں تک ہوتا ہے کہ صوبائی بجٹ کے اعلان میں اکثر اس بات پر تاخیر ہو جاتی ہے کہ وفاق مرکزی سطح پر اکٹھی کی جانے والی قومی آمدن میں کس صوبے کو کتنا حصہ دے گی ‘ اس ضمن میں ابھی چند روز پہلے بھی صوبائی حکومت نے یہ شکات کی تھی کہ فاٹا اور ضم ا ضلاع کے حصے کے فنڈز صوبے کو نہیں دیئے گئے اسی طرح صورتحال پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں صوبہ پختونخوا کے وفاق کے ذمے بقایا جات کی مالیت 67ارب 71 کورڑ بن چکی ہے جبکہ صرف گزشتہ مالی سال کے 37ارب 6کروڑ کے بقایات میں سے اب تک صرف 28ارب 50 کروڑ روپے ہی موصول ہوئے ہیں ان حالات کی وجہ سے صوبے کی مالیاتی صورتحال انتہائی دبائو کا شکار ہے اور اس وجہ سے صوبے کے ترقیاتی منصوبے تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں جس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو منصوبے تاخیر کاشکار ہو جاتے ہیں ان کے اخراجات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے کیونکہ مارکیٹ میں ہر چیزکی قیمت بڑھ جانے کی وجہ سے متعلقہ کمپنیاں اضافی رقوم کرتی ہیں جن کو کسی بھی قانون کے تحت ناجائز قرار نہیں دیا جا سکتا ‘ پھر اس وجہ سے منصوبے وقت پر مکمل نہ ہوسکنے کی وجہ سے نئے منصوبوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں تاہم ایک اور اہم مسئلہ حال ہی میں صوبے کے بعض اہم اور میگا منصوبوں میں اربوں کی کرپشن ایک الگ داستان سناتی ہے جس میں اہم لوگ ملوث ہونے کی داستانیں زبان زدعام ہیں اور جو صوبہ پہلے ہی مالی دبائو کا شکار ہے اس کے سرکاری خزانے کی یوں کھلم کھلا مبینہ لوٹ کھسوٹ کو روکنے کی کیا تدابیر کی جارہی ہیں اس کا جواب کون دے گا؟۔خیبر پختونخوا کو اولاً وفاق سے وسائل کم ملتے ہیں اور جو ملتے ہیں اس کا ا ستعمال شفاف نہیں ہوتا بہرحال اس سے قطع نظرخیبر پختونخوا کو ہر مالی سال میزانیہ کی تیاری کے دوران اس امر کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وفاق کی جانب سے ان کے لئے اعلان کردہ وسائل اور واجب الادا رقوممیں سے کتنا حصہ ملے گا جب سے فاٹا ضم اضلاع میں تبدیل ہوا ہے تب سے وفاق کی جانب سے صوبے کو این ایف سی میں ضم اضلاع کے حصے کی ادائیگی نہیں ہویء ہے جس کے باعث صوبے کو دیگر اضلاع کے ترقیاتی فنڈز سے کٹوتی کرکے ان اضلاع کاحصہ بھی نکالنا ہوتا ہے جس کے باعث بجٹ میں وہ توازن برقرار نہیں رہ پاتا جوایک متوازن بجٹ کے لئے ضروری ہے وفاق اور صوبے کی حکومتوں کے تعلقات اور سیاسی چپقلش کا خمیازہ جس طرح عوام کو بھگتنا پڑتا ہے وہ الگ سے ایک دردناک کہانی ہے ۔ جب تک وفاق ے صوبے کے مکمل حصے اور اعلان کے مطابق رقم کی فراہمی نہیں ہوتی بجٹ کی تیاریاور فنڈز مختص کرنے کا عمل بھی اندازوں ہی پر رہے گا صوبے کے عوام سے ناانصافی نہیں ہونی چاہئے سیاسی رقابت اور کشمکش کی سزا صوبے کے عوام کو نہ دی جائے وفاق کو دل بڑا رکھنے اور قومی یکجہتی کے تقاضوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔اب جبکہ نئے مالی سال کے بجٹ کی تیاری جاری ہے اس مموقع پر بطور خاص گورنر اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو وفاق سے اپنی اپنی سطح پر رابطہ کرکے صوبے کے بقایاجات سمیت دیگر وسائل اور مالی حقوق کے حصول کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے زیادہ بہتر ہو گا کہ صوبائی حکومت اسمبلی میں اس ضمن میں قرارداد کی متفقہ منظوری سے وفاق سے مطالبہ کیا جائے ساتھ ہی ساتھ صوبے کی مالیاتی ٹیم بھی اس ضمن میں متحرک ہو حکومت اگر صوبے کی سیاسی قیادت کو ساتھ لے کر وفاق میںصوبے کی سیاسی قیادت اور تمام نمائندوں کے ذریعے وزیر اعظم اور وزیر خزانہ پر دبائو ڈالنے کی کوشش کرے تو یہ ایک کامیاب حربہ ثابت ہو سکتا ہے بصورت دیگر صوبے کی آواز حسب سابق صدا بصحرا ہی رہنے کا یقینی خدشہ ہے۔

مزید پڑھیں:  مہنگائی کے دعوؤں میں تضاد