فیلڈ مارشل سپہ سالاراعظم

پاک فوج کے سپہ سالار سید عاصم منیر احمد شاہ کو پاکستان کی مرکزی کابینہ نے فیلڈ مارشل کے عہدے پر بحثیت ایک فائیو اسٹار جنرل فائز کر دیا ہے۔ ان کو ہندوستان کے ساتھ رواں ماہ 7 تا10مئی کی فوجی جارحیت کے خلاف پاکستان کی جانب سے شروع کئے جانے والے آپریشن بنیان مرصوص کے دوران بے مثال قیادت، اعلی فوجی حکمت ، اور دشمن کو عبرتناک شکست دے کر اس کے عزائم کو خاک میں ملانے کی توصیف وتوقیر، قدر و منزلت کرتے ہوئے فیلڈ مارشل کے تاحیات عہدے پر فائز کیا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں 20 مئی کو مرکزی کابینہ کے ایک اہم اجلاس میں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی طرف سے جنرل عاصم منیر کو ایک فائیو سٹار جنرل کی حیثیت میں فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینے کی تجویز کی کابینہ نے فوری منظوری دے دی ۔ آپ پاک فوج کے گیارہویں اور فیلڈ مارشل کے عہدے تک پہنچنے والے دوسرے فوجی سربراہ ہیں ۔جنرل عاصم سے پہلے پاک فوج کے پہلے مسلمان کمانڈرانچیف جنرل محمد ایوب خان نے 1959 میں اپنے آپ کو اس عہدے پر از خود ہی متمکن کر لیا تھا۔ فیلڈ مارشل یا سپہ سالار اعظم کا عہدہ تاحیات اور اعزازی ہے جس کے ساتھ کوئی انتظامی اختیار نہیں ہوتا۔اس عہدے پر پہنچنے والے موجودہ چند اعلی فوجی افسران کے لیے ضروری خیال کیا جاتا ہے کہ وہ فوج کی ملازمت سے سبکدوش ہوجانے کے باوجود تمام سرکاری تقریبات میں فائیو سٹار جنرل کی وردی ہی زیب تن کر کے شرکت کریں گے۔ اس عہدے کی مراعات اور سہولیات بھی تاحیات ہوتی ہیں۔ آئین پاکستان 1973 میں اگرچہ کسی فائیو سٹار جنرل کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی فیلڈ مارشل کے عہدے کا کوئی تذکرہ ہے۔ یہ ایک برطانوی فوجی روایت کا امین عہدہ ہے جو اعلی فوجی افسران کو، جس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ صرف فوجی سربراہ ہی رہے ہوں، بلکہ ضروری خیال کیا جاتا ہے کہ کسی بھی اعلی فوجی جنرل نے دوران جنگ یا دفاعی معاملات میں اپنے ملک کے لیے شاندار قائدانہ حکمت عملی سے بھرپور خدمات سر انجام دی ہوں اور غیر متزلزل لیڈرشپ کا مظاہرہ بھی کیا ہو ، جس کی بنیاد پر اس کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر فائز کیا جاتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ دنیا کے بہت سارے ممالک ایسے ہیں جہاں اس روایت کو تاج برطانیہ کے تحت رہنے کی وجہ سے باقاعدہ طور پر جاری رکھا گیا ہے۔ برطانوی ہند کی برٹش انڈین آرمی کی تاریخ کو دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کہ آزادی سے قبل بھرتی کیے جانے والے ہندوستانی فوجی افسران میں جنرل ایوب پہلے اعلی فوجی افسر تھے جو فیلڈ مارشل کے عہدے تک 1959 میں پہنچے۔ ان کے بعد ہندوستانی فوج کے سربراہ جنرل سام مانک شا کو جنوری 1973 میں فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دی گئی اور اس کی وجہ ان کی1971کی پاک بھارت جنگ میں حکمت عملی اور شاندار فوجی خدمات تھیں۔ جنرل مانک شا ایک پیشہ ور فوجی تھے جن کا تعلق ہندوستان کے مغربی پنجاب کے پارسی گھرانے سے تھا۔ ان کے اعلی فوجی رویے کا اعتراف ہندوستان میں 1971 کی جنگ کے بعد قیدی بنائے جانے والے پاکستانی فوجی افسران نے بھی کیا ہے۔ برٹش انڈین آرمی کے تیسرے ہندوستانی فیلڈ مارشل ہندوستانی فوج کے جنرل مدپا کریاپا تھے جن کو پاکستان انڈیا کی 1948 کی کشمیر جنگ میں مغربی محاذ پر ہندوستان کے لیے شاندار فوجی خدمات سرانجام دینے پر بعد از ریٹائرمنٹ جنوری 1986 میں فیلڈ مارشل کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ اگر فیلڈ مارشل کا عہدہ ایک برطانوی فوجی روایت کا تسلسل ہے تو جنرل عاصم منیر برصغیر کے چوتھے اعلی فوجی جنرل ہیں جن کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دی گئی ہے۔ فیلڈ مارشل کا مساوی عہدہ فضائی افواج میں مارشل آف دی ائیر فورس اور بحری افواج میں مارشل آف دی فلیٹ کا ہے۔ برصغیر کی تاریخ میں مارشل آف دی ائیر فورس کے فائیو سٹار جنرل کے عہدے پر پہنچنے والے واحد پائلٹ بھارتی فضائیہ کے سربرا ایئر مارشل ارجن سنگھ ہیں۔ وہ 1964 تا 1966 بھارتی فضائیہ کے سربراہ رہے۔ ان کو 1965 کی پاک بھارت جنگ میں شاندار فوجی خدمات سرانجام دینے پر ہندوستان کی حکومت نے مارشل آف دی ایئر فورس کے عہدے پر 25 جنوری 2002 کو فائز کیا ۔ برصغیر کی بحری افواج کی تاریخ میں اب تک مارشل آف دی فلیٹ کے عہدے پر کوئی بحری افسر نہیں پہنچ سکا ۔ جو اہم باتیں ہندوستان کی فیلڈ مارشل اور مارشل آف دی ایئر فورس کے حوالے سے ہیں وہ یہ کہ جنرل مدپا کریاپا نے اسٹاف کالج کوئٹہ سے تربیت حاصل کی، فیلڈ مارشل جنرل مانک شا نے بحیثیت سیکنڈ لیفٹیننٹ فرنٹئیر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا اور خیبر پختون خوا کے قبائلی علاقہ جات میں بھی خدمات سرانجام دیں۔ انڈین ایئر فورس کے مارشل آف دی ایئر فورس ارجن سنگھ نے بحیثیت پائلٹ آفیسر رائل انڈین ایئر فورس کے کوہاٹ اسٹیشن کے سکواڈرن ون میں کمیشن حاصل کیا اور 1939 سے 1944 تک خیبر پختون خوا کے قبائلی علاقہ جات میں ہونے والے مختلف برطانوی آپریشنز میں حصہ لیا۔ ان کا برطانوی ھوور جہاز زمین پر بیٹھے قبائلی پشتون نشانہ بازوں کی توڑا دار بندوقوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر حادثے کا شکار بھی ہوا اور وہ پشتونوں کی روایتی مہمان نوازی سے مستفید ہوتے ہوتے بال بال بچے کیونکہ جہاں ان کا جہاز گرا تھا وہاں پر انڈین فوجی یونٹس موجود تھیں۔ پاک فضائیہ کی 1965 کی جنگ میں سربراہ ایئر مارشل نور خان کو ان کی شاندار فوجی خدمات کی بنا پر مارشل آف دی ایئر فورس کا عہدہ یا اعزاز دیا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔یہ عہدہ بعد از مرگ بھی فوجی افسران کو دیا گیا ہے۔ جو ایک بات ان تمام لوگوں میں مشترک ہے وہ ان کی اعلی فوجی صلاحیت، قیادت کی خوبیاں اور بدترین حالات میں ایک اعلی ترین بہادری ہیں جو کہ جنرل عاصم منیر میں تو نظر آتی ہیں لیکن ایوب میں نہیں ۔ امریکی افواج میں کوئی واضح برطانوی فوجی روایت نہیں ۔ان کے ہاں امریکن جنرل آف دی آرمی فیلڈ مارشل کے مساوی ہے ۔مثلا یورپ کے مارشل پلان والے جارج سی مارشل یا امریکی صدر ایزن ھور۔ دنیا میں ہر جگہ جہاں برطانوی فوجی روایات موجود ہوں یا امریکی، فیلڈ مارشل کا عہدہ اعلی فوجی خدمات بشمول بہادری قائدانہ صلا حیت اور بہترین فوجی معرکہ آرائیوں کی بنیاد پر ان قوموں کے ادارے دیتے ہیں۔ پاکستان میں ایسا نہیں ہو سکا یہاں ایوب اپنی طالع آزما سوچ کے ساتھ اس عہدے پر 26 جنوری 1959 کو ازخود فائز ہو گیا۔ جنرل عاصم منیر کو مرکزی کابینہ نے عہدہ دیا ، ایوب نے اپنی خدمات کا صلہ خود ہی مانگ لیا۔ جنرل عاصم منیر نے یہ عہدہ اور اعزاز ملتے ہی اسے قوم اور افواج پاکستان کی امانت قرار دیا ہے۔ کچھ آئینی اور قانونی نکات پاکستان میں کچھ حلقے فائیو سٹار جرنیل شپ کے حوالے سے اٹھا رہے ہیں یہ وقت اتفاق رائے اور قومی یکجہتی کا ہے۔ آنے والے دنوں میں ان سوالات کا اٹھایا جانا اس بات پر منحصر ہے کہ جنرل عاصم منیر برطانوی فوجی روایات کا پاس رکھتے ہیں یا ایوب کی ختم شدہ سوچ کو زندگی بخشتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  خوابوں میں بھی خیال سے آگے نہیں گئے