وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کوئٹہ کا دورہ کیا اور اسکول بس پر ہونے والے خودکش حملے میں زخمی بچوں کی عیادت کے موقع پر کہ بھارتی پراکسیز کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی مذموم کوشش ناکام ہوگی دہشتگردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑنے کا وقت آ گیا ہے، دہشتگردوں کو جلد انجام تک پہنچایا جائے گا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ بچوں پر حملہ بھارتی سرپرستی میں کیا گیا، بھارت کی ریاستی پالیسی کے تحت پراکسیز کا استعمال قابل مذمت ہے۔ صرف بلوچستان ہی میں بھارت کے اشاروں پر ان کے پروردہ دہشت گردی اور تخریب کاری کی مذموم حرکتوں کے ذریعے سکول کے بچوں تک کی بس کو خود کش دھماکے کا نشانہ بنانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ا ندرون سندھ مورو میں بھی بھارت سے دیرینہ روابط رکھنے والی ایک قوم پرست سندھی تنظیم کے کارکن بھی مبینہ طور پرامن و امان کی صورتحال خراب کرنے پولیس اور بین الاضلاعی ٹرانسپورٹ پر حملوں میں ملوث بتائے جاتے ہیں خیبر پختونخوا میں تو فتنہ الخوارج کے دہشت گرد عرصہ دراز سے دہشت گردی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اب تک تو ان عناصر کو مختلف نام دیئے جاتے رہے اور وہ مختلف نعروں اور ناموں سے عوام کو گمراہ اور حکومت انتظامیہ فوج اور عوام کے درمیان غلط فہمیاں پھیلانے کی بھی کامیاب و ناکام مساعی کرتے رہے لیکن اب ان عناصر کو چھپنے کے لئے کوئی آڑ میسر نہیں اس لئے کہ عوام اب ان کی اصلیت ہی نہیں جان چکے بلکہ عوام کے ذہنوں میں ان عناصر نے جو غلط فہمیاں پیدا کی تھیں وہ بھی دور ہو چکیں اس کے بعد اب چونکہ یہ عناصر پوری طرح بے نقاب ہو چکے یہی حکومت و ریاست کے لئے مناسب موقع ہے کہ ان کے خلاف ایک بھر پور تطہیری مہم شروع کی جائے خاص طور پر بلوچستان میں خیبر پختونخوا بالخصوص ضم اضلاع میں یکے بعد دیگرے ہونے والے آپریشنز کی تطہیری کارروائیوں میں اب مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے جس کا عندیہ وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے دورہ کوئٹہ اور زخمیوں کی عیادت کے موقع پر دیا گیا ہے اس ضمن میں جہاں اندرونی طور پر مساعی کی ضرورت ہے وہاں حکومت کی جانب سے عالمی سطح پر بھارت کا دہشت گردانہ چہرہ بے نقاب کرنے کے حوالے بھی عملی اقدامات برموقع اور موزوں قدم ہوگا پاکستان کے پاس اس بات کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے انڈیا ہے اور نہ صرف خضدار سکول بس بلکہ جعفر ایکسپریس پر حملے اور دہشت گردی کے دیگر تمام واقعات کے متعلق حقائق دنیا کے سامنے رکھے جائیں گے۔وفد کے اراکین جس میں ممتاز سیاسی و سفارتی شخصیات شامل ہوں گی امریکہ اور یورپ کے مختلف ممالک کے علاوہ روس بھی جائیں گے اراکین دنیا کے اہم دارالحکومتوں میں تھنک ٹینکس اور حکومتی اراکین کے ساتھ ملاقاتوں میں اس واقعے کے علاوہ، جعفر ایکسپریس اور بلوچستان میں ہونے والے دہشت گردی کے تمام واقعات کے حقائق پیش کریں گے۔اگرچہ ابھی تک کسی گروپ نے سکول بس پر حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے، لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بھارت اور دیگر دشمن عناصر پاکستان میں مصیبت کو ہوا دینے میں ملوث ہیں۔ کلبھوشن جادھو معاملہ اس کی ایک واضح مثال ہے جس کے پیش نظر ریاست کے پاس کل کے مظالم کو اس طرح کے پراکسیوں سے جوڑنے کی کافی وجہ ہے پاکستان کو زیادہ معقول راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس کے پاس ہندوستانی ملوث ہونے کے جو بھی ثبوت ہیں وہ نئی دہلی کے ساتھ اٹھائے جائیں اور عالمی برادری کے ساتھ شیئر کیے جائیں۔یہ بھی ضروری ہے کہ داخلی معاملات پر بھی باریک بینی سے غور کیا جائے اور لوگوں کے احساسات سے آگاہی حاصل ہونی چاہئے بلوچستان میں ایک حقیقی مسئلہ ہے، اور پاکستان کو اسے حل کرنے کے لیے طویل المدتی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بیرونی یا اندرونی عناصر اس صورتحال کا فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ اس کے بعد پاکستانی ریاست کو اس معاملے پر سنجیدگی کے ساتھ رجوع کرنا چاہیے۔بلوچستان کے عسکریت پسندی کے مسئلے کے لیے انسداد دہشت گردی کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی حل تلاش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ بے گناہوں کے قتل میں ملوث افراد کو ان کے جرائم کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔تاہم ساتھ ساتھ دہائیوں پرانی شکایات کے سیاسی حل کے بغیر، ایک پائیدار انسداد بغاوت کی حکمت عملی نہیں بنائی جا سکتی۔اس کے لیے بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کو آن بورڈ لینا ہوگا۔ صرف تمام ناقدین کو ملک دشمن یا بھارتی ایجنٹ قرار دینے سے بلوچستان میں امن نہیں آئے گا۔ صوبے میں مفاہمت کے عمل کی سخت ضرورت ہے – جس میں عدم تشدد کے سیاسی عناصر شامل ہوں جو آئین کی حدود میں رہ کر کام کرنے پر راضی ہوں۔ صرف طاقت کا یکطرفہ استعمال ناکافی ہوگا۔
