ویب ڈیسک: پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے محکمہ قانون میں بھرتی 150 سے زائد ملازمین کیخلاف کارروائی روک دی گئی، کیس کی سماعت جسٹس نعیم انور اور جسٹس خورشید اقبال پر مشتمل بنچ نے کی۔
تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ نے چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا کی جانب سے قائم انکوائری کمیٹی کی سفارش پر محکمہ قانون میں بھرتی 150 سے زائد ملازمین کی تقرریاں منسوخ کرنے کے خلاف دائر رٹ پر درخواست گزاروں کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی روک دی اور حکومت سے جواب طلب کر لیا۔
جسٹس نعیم انور اور جسٹس خورشید اقبال پر مشتمل بنچ نے وقاص اکبرسمیت دیگر 163درخواست گزار وں کی رٹ پر سماعت کی۔ ان کے وکلاء خالد رحمان اور محمد غضنفر علی نے عدالت کو بتایاکہ درخواست گزاروں نے لاء پارلیمنٹری آفیئرزاینڈ ہیومن رائٹس ڈیپارٹمنٹ میں کمپیوٹرآپریٹر، جونیئر کلرک، ڈرائیور، نائب قاصد، چوکیدار اور سویپر کی پوسٹوں کیلئے ایپلائی کیا، جو انہوں نے کوالیفائی کیا۔
یہ تمام مرحلہ پورا ہونے پر سلیکشن کمیٹی نے میرٹ کی بنیاد پر درخواست گزاروں کی متعلقہ پوسٹوں پر بھرتی کی سفارش کی اور12فروری2021کو انہیں تقررنامے جاری کئے گئے اور انہیں صوبہ کے مختلف اضلاع میں تعینات کیا گیا تاہم اچانک ان کے تقررنامے غیرقانونی طور پر منسوخ کردیئے گئے تھے، اس کے خلاف انہوں نے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور عدالتی احکامات پر 12مارچ 2021کو انہیں بحال کیاگیا۔
خالد الرحمان ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایاکہ بعض ناکام امیدواروں نے ان تقرریوں کو چیلنج کیا اورپشاورہائیکورٹ نے ان تقرریوں میں شفافیت چانچنے کیلئے نیب کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی، جس نے اپنی رپورٹ پیش کی۔ اسی طرح صوبائی انسپکشن ٹیم نے بھی انکوائری کی اور رپورٹ پیش کی جس میں بعض بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی گئی، تاہم انہوں نے بتایاکہ تمام درخواست گزار تجربے اوراہلیت کی بناء پر کامیاب ہوئے۔
انکوائری کے دوران سکروٹنی کمیٹی اورسلیکشن کمیٹی کے ممبران پر ذمہ داری ڈالی گئی جس پر چیف سیکرٹری نے کمیٹی تشکیل دیکر انکوائری بٹھا ئی جس نے تقرری کے مرحلے کو منسوخ کرنے کی سفارش کی۔
وکیل درخواست گزار نے بتایاکہ کمیٹی کی جانب سے پراسیس منسوخی کی سفارش اس کے مینڈیٹ میں نہیں آتا کیونکہ اس کا کام انکوائری کرکے سلیکشن کمیٹی ممبر ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کرنا تھا۔ درخواست گزاروں کی تنخواہ روک دی گئی تھی اوران سے سابقہ تنخواہیں واپس لینے کی ہدایت کی گئی جو غیرقانونی اور غیرآئینی اقدام ہے۔
انہوں نے کہاکہ قانونی طور پر ایسے کیس میں اگر کوئی بے قاعدگی یا غیرقانونی کام ہوتاہے تو اس کیلئے تقرری کرنے والی اتھارٹی ذمہ دار ہوگی لہذا 3اکتوبر2024کے انکوائری کمیٹی کی سفارشات اور اس کے بعد 2025میں جاری نوٹیفیکیشنز کوکیس فیصلہ ہونے تک معطل کیا جائے۔
ابتدائی دلائل کے بعد عدالت نے قراردیاکہ انکوائری میں درخواست گزاروں کو شامل نہیں کیا گیا نہ ہی انہیں سننے کا موقع دیا گیا جو انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔عدالت نے سیکرٹری لاء اور ڈائریکٹر جنرل لااینڈ ہیومن رائٹس کے پی سے جواب طلب کرلیا ۔
