خیبر پختونخوا میں ہزاروں کی تعداد میں بغیر قاعدہ اورضابطہ کے اسلحہ لائسنس جاری کرنے کی اطلاعات کی فوری اور جامع تحقیقات ہونی چاہئے اخباری اطلاعات کے مطابق یہ عمل محکمہ داخلہ کے افسران، ڈیلرز اور شناختی کارڈ میں تبدیلی کرنے والے عناصرکی ملی بھگت سے ممکن ہوغیر قانونی اسلحہ کی بھر مار اور کھلے عام اسلحہ لہرا کر شہریوں کو لوٹنے ‘ قتل کرنے اور دیگر وارداتیں کوئی راز کی بات نہیں جس سے قطع نظر اب اسلحہ لائسنسوں کے اجراء میں جن بے قاعدگیوں اور ملی بھگت کا حوالہ دیا جارہا ہے یہ علیحدہ سے سکینڈل ہے جو ہر سطح پر ملی بھگت کے بغیرممکن نہیں ہو سکتی صوبے میں کتنے اسلحہ ڈیلروں کے پاس باقاعدہ لائسنس موجود ہے اور وہ قانونی طور پر اسلحہ کا کاروبار کرتے ہیں اور کتنے ڈیلر لائسنس کو اسلحہ کی سمگلنگ اور غیر قانونی تجار کا ذریعہ بنائے رکھا ہے اس کا بھی تفصیلی جائزہ لیا جانا چاہئے یہ بھی کوئی پوشیدہ امر نہیں شہریوں کی آسانی کے لئے متعارف ایپ کا غلط استعمال اور اسے الٹا قانون کو چکر دینے کے لئے استعمال جعلسازی کے ذریعے غیر مجاز افراد کو اسلحہ لائسنسوں کا اجراء یہ وہ سارا عمل ہے جس کی جامع تحقیقات سے ایسے عناصر اور ان کے سرپرستوں تک پہنچنا مشکل نہیں جو اسلحہ کی غیر قانونی تجارت اور سمگلنگ کا دھندہ چلا رہے ہیں اس طرح کے عناصر ہی کی مدد سے جرائم پیشہ عناصر کو اسلحہ کے حصول میں آسانی ہوتی ہے اب تو ہر متلاشی کے لئے اسلحہ کی خریداری زیادہ مشکل نہیں صوبے اور بالخصوص پشاور میں جرائم کی شرح میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ اسلحہ کا با آسانی حصول بھی ہے اس سکینڈل کا اعلیٰ حکام کو سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے اور نظام کی جن کمزوریوں اور غلط استعمال کی نشاندہی کی گئی ہے اس کا فوری تدارک ضروری ہے صوبے اور خصوصاً دارالحکومت پشاور کو غیر قانونی اسلحہ سے پاک کرنے کی خصوصی مہم چلائی جانی چاہئے اور صوبے میں تمام اسلحہ لائسنسوں اور اسلحہ ڈیلروں کے لائسنس کی جامع جانچ پڑتال ہونی چاہئے ۔
