صلاح الدین ایوبی جب گورنر شام بن کر شام میں آئے تو شام کے لوگوں کی جانب سے وہاں کی خوبصورت طوائفوں کو بلا لیا گیا اور ان کے ہاتھ میں گلاب کی پتیاں پکڑا دی گئی کہ جب صلاح الدین ایوبی آئینگے تو آپ نے ان کے اوپر گلاب کے پتیاں پھینکنے ہیں لیکن جب صلاح الدین ایوبی وہاں پر آئے اور ان کے اوپر گلاب کی پھول کی پتیاں پھینکی گئی تو وہ اسی جگہ پر رک گئے اور کہنے لگے کہ میں یہاں اپنے پائوں سے گلاب کی پتیاں مسلنے نہیں آیا بلکہ بیت المقدس کے لیے یہاں پر آیا ہوں،وہاں پر مسلمانوں کے اوپر ظلم ہو رہا ہے اور میں وہ ظلم ختم کرنے کے لئے یہاں پر آیا ہوں اور ساتھ فرمایا کہ ہٹادو طوائفوں کو میرے سامنے سے لیکن افسوس آج مسلمان ممالک امریکہ کے صدر کو بلا رہے ہیں اور ان کے استقبال میں مسلمان لڑکیاں کھڑے ہو کر آپنے بال لہرا رہی ہیں۔
ٹرمپ کے حالیہ دورے میں جب ٹرمپ نے سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کے بارے میں کہا کہ مجھے وہ بہت پسند ہے۔اسی لیے ہم انھیں بہت کچھ دیتے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہا کہ میں ولی عہد کے لیے کیا نہیں کرسکتا لیکن ایک بات تو طے ہے کہ ان تعلقات اور پیار کی پینگوں کی عرب ریاستوں کو کس قدر بھاری قیمت چکانا پڑسکتی ہے۔سوال یہ ہے کہ یہود ونصاری والے بیانیے کا کیا بنے گا جسے سن سن کر ہم بچے سے بوڑھے ہونے لگے ہیں؟ جو کافروں سے دوستی کرتے ہیں وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔پوری دنیا کے حالات پر نظر دوڑائیں تو سمجھ آئے گی کہ مسلمانوں کی ذلت وبربادی کا آغاز تبھی سے ہوا جب آپس میں نفرت ودشمنی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر غیر مسلموں کو آپنا خیر خواہ اور ہمدرد سمجھ کر ان سے دوستیاں لگائیں اور انہیں اپنوں پر ترجیح دی۔آئیے ہم وقت کا پہیہ تھوڑا پیچھے گھماتے ہیں۔ٹرمپ کو سنہری تلواروں کے ساتھ سلامی پیش کی گئی۔ان کے سامنے جامنی رنگ کا قالین بچھایا گیا کیونکہ ٹرمپ کی ٹائی بھی اسی رنگ سے ملتی جلتی تھی۔سوال یہ ہے کہ سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب کو اچھوت ریاست قرار دیا تھا اور اب ٹرمپ کہتا ہے کہ میں ولی عہد کے لیے کیا نہیں کرسکتا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب پر اسرائیل کو تسلیم کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کا اسرائیل کو تسلیم کرنا ان کی عزت افزائی ہوگی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ان کی امید ،خواہش اور خواب ہے کہ سعودی عرب جلد اسرائیل سے تعلقات بحال کرے اور معاہدہ ابراہیمی کا حصہ بنے شہزادہ سلمان کی درخواست پر شام پر سے پابندیوں کا ہٹایا جانا لیکن شام کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی تلقین وتاکید ایک نئے عہد کے آغاز کا شاخسانہ لگتا ہے۔ فلسطین سے ہمارا تعلق خالص دینی اور اسلامی ہے۔ ایک طرف فلسطین کے مسلمان ہمارے دینی بھائی ہیں تو دوسری طرف اس سرزمین پر مسجد اقصی موجود ہے۔فلسطین میں فتنہ وفساد چل رہا ہے اور قتل عام بھی اور ہم سب بے بس ہیں،گھروں کو نذر آتش کیا جا رہا ہے ،لوگوں کو مارا جا رہا ہے ،مسجدوں کو شہید کیا گیا مگر ہمارے پاس سوائے خون کے آنسو رونے کے اور راستہ نہیں ہے ۔ظلم وستم اور تشدد کا انداز آج کل وائرل ہونے والے ویڈیوز سے لگایا جاسکتا ہے۔بہت سی ایسی تصویریں ہیں جنہیں دیکھنے کی سکت ہمارے اندر نہیں ہے ۔افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری آنکھیں ابھی بھی نہیں کھل رہی ہیں۔ہمارے پاس نہ کوئی قائد ہے اور نہ کوئی منظم پلان اور نہ ہی کوئی مضبوط لائحہ عمل اور جب تک ایسا رہے گا ہم ایک کے بعد ایک مرتے رہیں گے ،اج فلسطین میں لوگ مر رہے ہیں کل ہمارے آپنے گھروں میں یہ سب ہو سکتا ہے ۔قران کہتا ہے ان لوگوں کے لیے تم کیوں نہیں لڑتے جو کمزور پاکر جو دبا لیے گئے ہیں۔یاد رہے دنیا اچھے لوگوں کی کمی سے تباہ نہیں ہو رہی بلکہ مسلم امہ اچھے لوگوں کی خاموشی سے تباہ ہو رہی ہے ۔اسرائیل نے اقوام متحدہ کے اصولوں کو پیروں تلے روندتے ہوئے برسوں سے مظلوم مسلمان فلسطینیوں کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جو کہ اسلامی دنیا کے لیے انتہائی افسوس ناک اور ناقابلِ قبول عمل ہے۔اسرائیل کے گھنائونے کھیل کے پیچھے نسل پرستی ،قوم پرستی اور مذہب پرستی کے باطل نظریات کار فرما ہیں جن کو دنیا یہودی لابی کے نام سے خوب سمجھتی ہے جس کا مقصد تمام یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین میں آباد کر کے گریٹر اسرائیل "Greater Israel”کی عظیم ریاست کے خواب کو عملی جامہ پہنا کر دنیا میں یہودی حکومت تشکیل دینا ہے جسے کچھ مفکرین اور تاریخ
دان دجال کے آنے کی تیاری کے ساتھ منسوب کرتے ہیں جبکہ اس کار بد میں بہت سے مغربی مشرک قوتیں مختلف مذہبی،سیاسی اور معاشی وجوہات کی وجہ سے پیش پیش رہے جس میں امریکہ سر فہرست ہے ۔گریٹر اسرائیل کے اس پروپیگنڈا کو شروع میں برطانیہ اور بعد ازاں امریکہ نے خفیہ طور پر پروان چڑھانے میں بہت ہی اہم رول ادا کیا ہے ۔اس مشن میں مشرکین اور یہود مسلمانوں کو اپنی راہ میں سب سے بڑی اور بنیادی رکاوٹ سمجھتے تھے۔اصل بات یہ ہے کہ امت مسلمہ کہاں کھڑی ہے۔اللہ تعالی کی کتاب سے یہ بات واضح ہے کہ یہودی سب سے بڑے مکار،فسادی اور باطل قوم ہیں۔میرا مقصد یہ ہے کہ منافقت کو بے نقاب کیا جائے۔جب امریکہ پاکستان اور بھارت کو ایٹمی دھماکوں پر تنبیہ کرتا ہے اور خود اپنے گھنائونے ہتھیار ختم کرنے سے انکار کرتا ہے تو منافقت ضرور نظر آتی ہے۔جب فلسطینوں پر اذیت کرنے کے خلاف اقوام متحدہ میں کوئی قرارداد منظور نہیں ہوتی تو مغربی طاقتوروں کی منافقت پر حیرت ضرور ہوتی ہے۔عرب جہاں انسانی حقوق کا پرچار اور سامراجیت کے خلاف جو آواز بلند ہوا کرتی تھی،ٹرمپ کے حالیہ دورے میں وہ گھونٹ دی گئی جو آب انسانی حقوق کے پرچار سے آپنے عزائم کو پوشیدہ رکھتی ہیں۔کیونکہ ہم سب بک چکے ہیں آب وہ فلسطین کے مسئلے پر آواز بلند نہیں کرتیں۔غیر مسلموں پر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے سے فنڈ ملتے ہیں اور اسرائیل پر تنقید کرنے سے شاید فنڈ رک جائیں۔خدارا! مسلم امہ آپنا تشخص بحال کرے اور ایک ہی پلیٹ فارم سے مشترکہ حکمتِ عملی کے تحت اسلاموفوبیا اور کشمیر سے فلسطین تک ہونے والے مظالم کے خلاف ایک آواز نظر آئیں۔
