بعض تحقیق اور مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مینا /لالی پرندہ کانگو وائرس پھیلانے والے چیچڑ کی تعداد کو کم کرنے میں قدرتی طور پر مدد گارہے کیونکہ کہ یہ پرندہ مویشیوں کے جسم کے اوپر موجود چیچڑ کو کھینچ کر کھا جاتا ہے۔ اسی لئے عوامی سطح پر اس آگاہی کی ضرورت ہے کہ مینا/لالی پرندے کو نقصان نہ پہنچایا جائے تاکہ ان کی تعداد میں اضافہ ہو اور یہ کانگو بخار سے بچائو کا سبب بنے۔ایک اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ کانگو بیماری شترمرغ کے علاوہ باقی تمام پرندوں کو نہیں ہوتی۔کانگو وائرس اکثر گائے، بھینس، بکری، بھیڑ اور اونٹ جیسے جانوروں میں پایا جاتا ہے، مگر جانوروں میں کوئی واضح علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔یعنی یہ جانور بیمار نظر نہیں آتے، لیکن ان کے جسم میں وائرس موجود ہوتا ہے۔کانگو وائرس چیچڑ کے ذریعے ان جانوروں میں آتا ہے۔ یہ چیچڑ انسانوں کو کاٹ کر وائرس منتقل کر سکتے ہیں۔ کانگو بخار ایک خطرناک وائرل بیماری ہے جو انسانوں میں بخار اور خون بہنے کی علامات کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں۔ کانگو وائرس اس بیماری کے پھیلانے کا سبب ہے۔جب انسان ان جانوروں کا خون، گوشت یا رطوبت کو بغیر حفاظت کے چھوتا ہے، تو وائرس انسان میں منتقل ہو سکتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال دس سے پندرہ ہزار افراد اس بیماری سے متاثر ہوتے ہیں اور پانچ ہزار افراد کی موت واقع ہوتی ہے۔انسانوں میں اس بیماری سے متاثر ہونیوالے 10 سے 40 فیصد مریض موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ہائیلومہ چیچڑ کی وہ قسم ہے جس سے کانگو بخار پھیلتا ہے۔ 1944ء میں روس کے کریمین نامی ملک میں یہ بیماری آئی اسی وجہ سے اس بیماری کانام کریمین ہموریجک بخار رکھا گیا۔اس سے فوجی اور مویشی پال لوگ متاثر ہوئے۔ 1956ء میں یہی وائرس کانگو (افریقہ) میں بھی پایا گیا۔ جب سائنسدانوں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ دونوں جگہوں پر بیماری کی وجہ ایک ہی وائرس ہے۔ اس لیے اس بیماری کو ”کریمینـکانگو ہموریجک فیور”’ یعنی CCHF کہا جانے لگا۔یہ بیماری دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں پائی جاتی ہے۔ جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے پاکستان کی آب و ہوا متعدی بیماریوں کو پناہ دینے کیلئے ایک ساز گار میدان بنی ہوئی ہے۔ 1976 میں اس بیماری کی ابتدائی وباء کے بعد سے کریمین کانگو ہموریجک بخار (CCHF) پاکستان میں مقامی ہے جس کے بعد کیسز کی تعداد کبھی کبھار خاص طور پر عید الاضحیٰ کے موقع پر آتی رہتی ہے۔2005 میں پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر اس بیماری سے کافی لوگ متاثر ہوئے۔ اس کے فوراً بعد یہ بیماری ملک کے دیگر صوبوں میں پھیل گئی اور اب زیادہ تر کیسز بلوچستان اور سندھ سے سامنے آرہے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں پہلی بار کانگو بخار ستمبر 2010 میں رپورٹ ہوا۔ یہ بیماری ہسپتال میں مریضوں سے ڈاکٹر اور دیگر عملے کو لگنے والی بیماریوں میں سے ایک ہے۔ قومی ادارہ صحت، اسلام آباد، پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق 2024ء میں کانگو بخار کے 61 کیس رپورٹ کئے گئے جن میں سے 15 فیصد مریضوں کا انتقال ہوا۔
کانگو بخار سے کس کو خطرہ ہے؟
کانگو بخار سے مویشی پالنے والے کسان جو گائے، بھینس، بکری وغیرہ کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے جانوروں کے جسم پر چیچڑ (ticks) موجود ہوں۔ اس کے علاوہ قصائی، ویٹرنری ڈاکٹرز، پیرا ویٹرنری سٹاف، انسانی ڈاکٹرز اور نرسیں، صفائی کا عملہ،چرواہے، فارم پر کام کرنے والے مزدوروں کو کانگو وائرس یا کانگو بخار لگنے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ متاثرہ جانور کے خون اور گوشت کے ساتھ براہ راست رابطہ انسانوں میں کریمین کانگو ہموریجک بخار(CCHF) کا باعث بنتا ہے۔جس چیچڑ میں وائرس موجود ہواس کے کاٹنے سے جانور میں وائرس داخل ہو جاتا ہے اور وائرس جسم میں داخل ہونے کے بعد تقریباً ایک ہفتے تک خون میں رہتا ہے اور جب کوئی دوسرا چیچڑ کاٹتا ہے تو جانور سے وائرس چیچڑ میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اگرچہ متعدد چیچڑ کی اقسام کانگو وائرس کے پھیلائو کا سبب بنتے ہیں، لیکن ہائیلومہ چیچڑہی زیادہ تر وائرس کی منتقلی کا سبب ہیں۔کانگو وائرس یا تو چیچڑ کے کاٹنے سے یا ذبح کے دوران اور اس کے فوراً بعد متاثرہ جانوروں کے خون یا باقیات سے رابطے کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہو سکتا ہے۔ زیادہ تر کیسز مویشیوں سے وابستہ لوگوں میں پیش آتے ہیں، جیسے کہ مزدور، قصائی اور وٹرنری ڈاکٹر وغیرہ۔انسان سے انسان میں منتقلی متاثرہ افراد کے خون اور دیگر جسمانی رطوبتوں سے قریبی رابطے کے نتیجے میں ہو سکتی ہے۔ ہسپتال میں آلات کے غلط استعمال،آلودہ سرنج کے استعمال اور طبی سامان کی آلودگی کی وجہ سے بھی اس بیماری کے جراثیم پھیل سکتے ہیں۔ عام طور پر انسانی جسم میں وائرس داخل ہونے کے پانچ سے چھ دن بعد علامات ظاہر ہوتی ہیں، البتہ یہ دورانیہ تیرہ دنوں تک کا بھی ہو سکتا ہے۔
انسانوں میں کانگو بخارکی علامات کیا ہیں؟
وائرس کے جسم میں منتقل ہونے کے بعد یہ متاثرہ شخص کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں بہت سے سنگین اور ممکنہ طور پر مہلک نتائج نکل سکتے ہیں۔ ابتدائی علامات میں بخار، سر درد، پٹھوں میں درد، کمر میں درد، تھکاوٹ اور معدے کی تکلیف شامل ہیں۔ سنگین صورتوں میں ظاہری علامات بڑھ سکتی ہیں جن میں تیز بخار، گلے کی سوجن، زیر جلد خون کے باریک شریانوں کے پھٹنے سے جلد، منہ اور گلے کے اندر دھبے پڑنا، دل کی دھڑکن کا تیزہونا، پٹھوں کا درد، آنکھوں کا سرخ ہونا، گردن کا درد، متلی،قے اور دست، جسم کے غدود بڑھ جانا، جسم پر خون کے دھبے، جگر کا سوجنا، ناک، منہ اور کان وغیرہ سے زیادہ مقدار میں خون بہنا وغیرہ۔
کانگو بخار سے بچنے کی احتیاطی تدابیر کیا ہیں؟
اس بیماری سے بچنے کے لئے دنیا بھر میں ابھی تک کوئی حفاظتی ٹیکہ جات موجود نہیں ہیں اسی لئے بچائو کا زیادہ تر انحصار بیماری پھیلانے والے چیچڑ کے پھیلائوکو روکنے پر ہی منحصر ہے۔ مویشیوں پر اور اْن کے باڑوں پر چیچڑوں کو تلف کرنی والی مختلف ادویات کا سپرے کرنا سب سے اہم تدبیر ہے۔ پانچ سے دو ملی لیٹر چیچڑ مار دوائی کو ایک لیٹر پانی میں حل کرکے محلول بنائیں اور اس کاسپرے کریں۔ یہ عمل ہر دو مہینے بعد کیا جانا چاہیئے۔ رات کیوقت چیچڑ اپنے مسکن سے ایک قطار بنا کر نکلتے ہیں اورمویشیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں ان کے مسکن کو تلاش کر کے اس پرسپرے کرنا چاہیئے۔ سپرے جانور کے سارے جسم پر کیا جانا چاہیئے۔ عام طور پر چیچڑ جانور کے جسم پر دم کے نیچے،گردن، جھالر، ٹانگوں کے بیچ، اور کانوں کے اند ر ہوتے ہیں اسی لئے ان جگہوں پر سپرے کرنا چاہیئے۔ فارم کیاردگرد پانی کی نالی بنانے اور اس کو ہر وقت پانی سے بھر کر رکھنے سے چیچڑوں کو فارم میں داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ اگر چیچڑ انسانی جسم کے ساتھ چپک جائیں تو چمٹی کی مدد سے چیچڑ کو کھال کے نزدیک ترین جگہ سے پکڑ کی آہستہ سے سیدھا کھینچ کرنکالیں۔ اگر چمٹی میسر نہیں تو دستانے یا کسی صاف کپڑے کا استعمال کر لیں۔ جسم پر موجود چیچڑ کو کبھی بھی ہاتھ سے پکڑ کر نکالنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے اور نہ ہی انہیں ماچس سے جلانے کی کوشش کریں۔ چیچڑ نکالنے کے بعد متاثرہ جگہ پر جراثیم کش دوا لگائیں اور اسے اچھی طرح صاف کریں۔مویشی منڈی جاتے وقت مکمل لباس پہنیں یعنی آدھی آستین والی قمیض کا استعمال نہ کریں۔ ہلکے رنگ کے کپڑے پہنیں تاکہ چیچڑ اگر کپڑوں کے ساتھ لگی ہو تو آسانی سے دکھائی دے اور وقت پر چیچڑ کو جسم سے دور کیا جا سکے۔ اپنی جسم کے کھلے حصوں پر چیچڑ دور کرنیوالی ادویات (Insect repellent) کا استعمال ضرور کریں۔ بند جوتوں کا استعمال کریں تاکہ زمین پر پڑی چیچڑ سے بچا جا سکے۔ اگر ہاتھ پر کوئی زخم یا خراش ہو تو جانوروں کو غیر ضروری چھو نیسے پرہیز کریں۔ ہاتھ پر زخم ہونے کی صورت میں جانور کو ہاتھ لگانے سے پہلے دستانے پہنیں۔ اگر جانور کو چھو لیا ہے تواس ہاتھ سے آنکھ کو نہ چھوئیں نہ ہی خارش کریں۔جانوروں کو ہاتھ لگانے کے بعد ہاتھوں کوصابن سے دھویں۔ جانوروں کو ذبح کرنے کے دوران مضبوط دستانوں (Gloves) کا استعمال ضرور کریں اور چھری کے کٹ لگنے سے اپنے آپ کوبچائیں۔ ذبح ہوئے جانوروں کے خون کو پانی سے صاف کریں۔ جانور کی کھال کو اٹھاتے وقت دستانوں کا استعمال کریں، کیونکہ چیچڑ اکثر کھال کے اندر چھپے ہوتے ہیں۔ گوشت کو اچھی طرح پکائیں، ڈیری فارمنگ سے وابستہ افراداپنے جانوروں کے جسم اور فارم سے چیچڑ کا خاتمہ یقینی بنائیں ۔
کانگو بخار سے بچائو حکومتی اقدامات اور کوششیں
قومی ادارہ صحت، اسلام آباد نے اپریل 2025 میں سفارشات پیش کیں ہیں چونکہ عیدالاضحیٰ کے موقع پر مویشیوں کی آمدورفت بڑھ جاتی ہے اور انسانوں کے مویشیوں کے ساتھ روابط بڑھ جاتے ہیں اسی لئے کانگو بخار کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اسی لئے تمام متعلقہ اداروں کو بیماری سے بچائو کیلئے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ جانور کی قربانی کے عمل کے دوران دستانوں کے استعمال کو عام کرنا چاہیئے تاکہ وائرس کے پھیلائو کو محدود کرنے کے ساتھ اموات کو روکا جاسکے۔ جانور کے خون یا دیگر جسمانی رطوبتوں کے ساتھ رابطے سے سختی سے گریز کیا جائے۔ حالیہ خبروں میں، صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت نے بھی جانوروں کے گزرنے کیلئے اپنی سرحدوں پر چوکیاں قائم کرنے کیلئے سخت اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ سرحدوں سے گزرنے والے تمام مویشیوں کو چیچڑوں کے خلاف سپرے کر کے ان سے پاک کرنیکی کوشش کی جائے۔ دیہی علاقوں میں جہاں زیادہ تر کیسز سامنے آتے ہیں وہاں چیچڑ کی روک تھام کے مناسب اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ حکومتِ خیبر پختونخوا نے جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والی بیماریوں بشمول کانگو بخار کے حوالے سے ہدایات جاری کی ہوئی ہیں کہ عوام میں ان بیماریوں کی روک تھام کیلئے وسیع پیمانے پر آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ خیبر پختونخوا کی عوام کی صحت، ناگہانی بیماریوں سے محفوظ رہے۔
کانگو بخار سے بچائو کیلئے محکمہ لائیوسٹاک اور ڈیری ڈویلپمنٹ (توسیع) خیبر پختونخوا کی کوششیں
لائیوسٹاک ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخوا ہر سال گرمیوں اور عید الاضحیٰ سے پہلے خاص مہمات چلاتا ہے تاکہ کسان، مزدور، ویٹرنری عملہ، اور عوام کونگو وائرس سے محفوظ رہیں۔ اس حصوصی مہم کے دوران جانوروں پر مفت چیچڑ مار ادویات کا سپرے کیا جاتا ہے۔خاص طور پر قصبوں، فارم اور مویشی منڈیوں میں اس کے علاوہ صوبہ بھر کے تمام داخلی راستوں پر چیک پوسٹیں قائم کی جاتی ہیں اور صوبے میں داخل ہونی والے مویشیوں اور گاڑیوں پر چیچڑ مار سپرے کیا جاتا ہے۔ ریڈیو، بینرز، اور کمیونٹی جلسوں کے ذریعے آگاہی مہم چلائی جاتی ہیں جس میں کسانوں، قصابوں اور فارم مزدوروں کو احتیاطی تدابیر سمجھائی جاتی ہیں۔عید قربان کے دنوں میں منڈیوں میں سپرے اور جانوروں کا طبی معائنہ کرنا اور خطرناک جانوروں کو فوری الگ کرنے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ ویٹرنری عملے کو ماسک، دستانے، اور حفاظتی لباس مہیا کیاجاتا ہے اور کانگو بخار بارے میں ہنگامی لائحہ عمل کی تیار کیا جاتا ہے۔
